Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
بیشک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
انا ارسلنک شاھداً و مبشراً و نذیراً : سورت کے شروع سے یہاں تک رسول اللہ ﷺ اور مومنوں کے لئے فتح و نصرت، مغفرت، تکفیر سیئات اور نجت میں داخلے کی بشارت اور وعدے کا بیان ہے، جس کے ساتھ منافقین و کفار کے لئے عذاب، غضب، لعنت اور جہنم میں داخلے کی وعید کا بیان ہے۔ اب یہاں سے اس فتح مبین کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا آغاز ہوتا ہے جس کی تمہید کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا مقام و منصب بیان فرمایا، تاکہ مسلمان اسے پہچانیں اور آپ ﷺ کی اطاعت اور جاں نثاری میں کوئی دریغ نہ کریں۔ چناچہ فرمایا کہ ہم نے آپ کو جن یا میں لوگوں کے سامنے حق کی شہادت دینے والا، اسے تمام لوگوں تک پہنچا دینے والا، آخرت میں ان پر پیغام حق پہنچا دینے کی شہادت دینے والا، فرماں بر داروں کو بشارت دینے والا اور نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس مقام پر اصل مقصود فتح کی بشارت اور اس سے متعلقہ معاملات ہیں، سالئے آپ ﷺ کی تعریف میں صرف تین الفاظ ”شاھداً“ ، ”مبشرا“ اور ”نذیراً“ بیان فرمائے، جبکہ سورة احزاب میں مقصود رسول اللہ ﷺ کے اپنے متنبیٰ زید ؓ کی مطلقہ زینب ؓ سے نکاح اور دوسرے معاملات پر منافقین کی اڑائی ہوئی گرد سے آپ ﷺ کا دامن پاک کرنا ہے، اس لئے وہاں سورة احزاب (46) میں آپ ﷺ کی زیادہ تعریف فرمایء اور ان تینوں اوصاف کے ساتھ ”وداعیا الی اللہ باذنہ و سراجاً منیراً“ (اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذان سے اور روشنی کرنے والا چراغ) بھی فرمایا۔ (ابن عاشور)”شاھدا“ کی تفسیر کے لئے مزید دیکھیے سورة احزاب (45) ، بقرہ (143) اور سورة نسائ (41)۔
Top