Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اجْتَنِبُوْا : بچو كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ الظَّنِّ ۡ : (بد) گمانیوں اِنَّ بَعْضَ : بیشک بعض الظَّنِّ : بدگمانیاں اِثْمٌ : گناہ وَّلَا : اور نہ تَجَسَّسُوْا : ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی وَلَا يَغْتَبْ : اور غیبت نہ کرو بَّعْضُكُمْ : تم میں سے (ایک) بَعْضًا ۭ : بعض (دوسرے) کی اَيُحِبُّ : کیا پسند کرتا ہے اَحَدُكُمْ : تم میں سے کوئی اَنْ يَّاْكُلَ : کہ وہ کھائے لَحْمَ اَخِيْهِ : اپنے بھائی کا گوشت مَيْتًا : مردہ کا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ : تو اس سے تم گھن کروگے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمٌ : مہربان
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت سے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(1) یا یھا الذین امنوا اجتنبوا…: پچھلی آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات خراب کرنے والی ایسی چیزوں سبے منع فرمایا تھا جو ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں، یعنی مذاق اڑانا، عیب لگانا اور برے نام سے پکارنا، اب ان تین چیزوں سے منع فرمایا جو دوسرے بھائیوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر انہیں ان کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہیں بدگمانی، جاسوسی اور غیبت۔ یہ تینوں کام انتہائی کمینگی اور بزدلی کے کام ہیں، کیونکہ انہیں کرنے والے میں جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کے سامنے آسکے۔ یہ اس سورت کی پانچویں آیت ہے جس کا آغاز ”یایھا الذین امنوا“ سے ہوا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں کا م ایمان اور اس کے دعوے کے منافی ہیں، اسلئے ان سے بچ جاؤ۔ (2) اجتنبوا کثیراً من الظن…: یہلی بات یہ فرمائی کہ اس چیز سے بچو کہ کسی کے متعق جو سنو یا دیکھو اس کے متعلق براگمان ہی قائم کرلو، بلکہ جہاں تک ہو سکے مومن کے تمام اقوال و اعمال کے متعلق اچھا گمان رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ بعض گمان بالکل بےبنیاد اور گناہ ہوتے ہیں۔ اس لئے زیادہ گمان سے بچو، کیونکہ اس کا نتیجہ ایسے گمانوں میں پڑجانا ہے۔ جو گنا ہ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے، سب گمانوں کو نہیں، کیونکہ ظن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک ظن غالب ہے، جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہوجائے، اس پر عمل کرنا دسرت ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اس پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلاً عدلاتوں کے فیصلے، گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے سے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایات۔ ان سب چیزوں میں غور و فکر، جانچ پڑتالا ور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے، مگر اس پر عمل واجب ہے۔ اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی مخالف جانب کا یعنی اس کے درست نہ ہونے کا نہایت ادنیٰ سا امکان رہتا ہے، مثلاً ہوسکتا ہے کہ گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، یا راوی کو غلطی لگی ہو، مگر اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس مکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو اس پر بھی اگرچہ ظن کا لفظ بول لیا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ علم ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ ظن کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی وجہ سے دل میں ایک خیال آکر ٹھہغر جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں، یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے کے امکان سے کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے۔ ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔”ان بعض الظن اثم“ (بےشک بعض گمان گناہ ہیں) سے یہی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :(ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً) (یونس : 36) (بےشک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا) اور اللہ کے فرمان :(ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس) (النجم : 23) (یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں) میں اسی ظن کا ذکر ہے اور اسی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ایاکم والظن ، فان الظن اکذب الحدیث) (بخاری، الادب، باب :(یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن…): 6066)”گمان سے بچوچح کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔“ اسے سب سے جھوٹی بات اس لئے کہاک گیا کہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ دلیل کے بغیر فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے۔ چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا ہے اور سب سے بڑا جھوٹ اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس یا شیطان کے کہعنے پر اسے برا قرار دے لیا، جب کہ اس کے برے ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ (3) آیت میں ایسے گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بےدل یل ہو، مثلاً ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اور اس کے بددیانت یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت موجود نہیں، اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں ، اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہے تو اس وقت گمان منع نہیں۔ مثتاً ایک شخص کا اٹھنا بیٹھنا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو چویر یا زنا کے ساتھ معروف ہیں، یا رتا کو واں پھرتا ہے جہاں اس کا کوئی کام نہیں، اس کے متعلق گمان پیدا ہونا فطری بات ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا : بلکہ فرمایا :(اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم)”بہت سے گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔“ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح بخاری میں فرمایا :”باب مایجوز من ال ظن“ ”وہ گمان جو جائز ہیں۔“ اور اس باب میں عائشہ ؓ سے حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ما اظن فلاناً و فلانا یعرفان من دیننا شیئاً قال اللیث کانا رجلبن من المنافقین) (بخاری ، الادب ، باب مایحوز من الظن…:6069)”میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔“ لیث نے فرمایا :”یہ دونوں آدمی منافق تھے۔“ اس جائز گمان سے مراد وہ گمان ہے جس کی علامات یا دلیلیں وضاح ہوں۔ (4) جس طرح دوسرے مسلمان کے حق میں بدگمانی کرنا منع ہے اسی طرح خود مسلمان کو بھی لازم ہے کہ ایسے ہر کام سے اجتباب کرے جس سے کسی کے دل میں اس کے متعلق براگمان پیدا ہو۔ علی بن حسین بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی بیوی صفیہ ؓ نے خبر دی کہ نبی ﷺ مسجد میں تھے اور آپ ﷺ کی بیویاں بھی آپ کے پاس تھیں۔ وہ جانے لگیں تو آپ ﷺ نے صفیہ ؓ سے فرمایا :”جلدی نہ کرنا، یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں۔“ ان کا مکان اسامہ کی حویلی میں تھا۔ چناچہ نبی ﷺ ان کے ساتھ نکلے تو آپ کو دو انصاری ملے، انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ آپ ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا :(تعالیا انھا صفیۃ بنت حیی)”ادھر آؤ ! یہ (میری بیوی) صفیہ بنت حیی ہے۔“ انہوں نے کہا : ”سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! (بھلا ہم آپ کے متعلق براگمان کرسکتے ہیں۔)“ آپ ﷺ نے فرمایا :(ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم، وانی خشیت ان یلقی فی انفسکما شیئاً) (بخاری، الاعتکاف، باب زیارۃ المراۃ زوجھا فی اعتکافہ :2038)”شیطان انسان میں خون کے پھرنے کی طرح پھرتا ہے، تو میں ڈرا کر وہ تمہارے دلں میں کوئی بات ڈال دے۔“ (5) ولا تحبسوا :”جس یجس جساً“ (ي) کسی چیز کو معلوم کرنے کیلئے ہاتھ سے ٹٹولنا، تجسس، جاسوی کرنا، خفیہ باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ جاسوسی برے گمان کا لازمی نتیجہ ہے، کیونکہ آدمی جب کسی کے متعلق دل میں برا گمان قائم کرلیتا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لئے اس کی جاسوسی کرتا ہے اور اس کے ان عیوب کی ٹوہ لگاتا رہتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال رکھا ہے، تاکہ یہ اپنے گمان کو سچا ثابت کرسکے۔ یہ ایمانی مودت و اخوت کے سراسر خلاف ہے۔ جب مسلمان بھائی کے ان عیوب پر بھی پردہ ڈالنے کا حکم ہے جو آدمی کو معلوم ہوں تو ان عیوب کی ٹوہ لگانا کیسے جائز ہوس کتا ہے جو محض اس کے گمان کی پیدا ار ہیں، یا جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولاتناجثوا، ولا تحاسدوا، ولاتباغضوا، ولاتدابروا، وکونوا عباد اللہ اخوانا) (بخاری، الفرائض، باب تعلیم الفرئاض :6863، 6066)”گمان سے بچو ! کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے اور ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خریدو فروخت میں) بولی بڑھاؤ ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو، نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ ابو برزہ اسلمی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(یا معشر من امن بلسانہ ولم یدخل الایمان قلبہ ! لاتعنابوا المسلمین ولاتتبعوا عوراتھم فانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورتہ، ومن یتبع اللہ عورتہ یفضسحہ فی بینہ) (ابوداؤد، الادب، باب فی الغیۃ : 3880 قال الالبانی حسن صحیح)”اے ان لوگوں کی جماعت جو اپنی زبان کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور ایمان کے دلوں میں داخل نہ ہوا ! مسلمانوں کی غیب مت کرو اور نہ ہی ان کے چھپے ہوئے عیبوں کا پیچھا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کا پچیھا کرے گا اور سج کے عیبوں کا پیچھا اللہ تعالیٰ کرے وہ اسے اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔“ بعض اوقات آدمی اصلاح کی نیت سے جاسوسی کرتا ہے، مگر یہ اصلاح کا طریقہ نہیں، اس سے باہمی عداوت پیدا ہتوی ہے اور خرابی بڑھتی ہے، اصلاح نہیں ہوتی۔ معاوضہ ؓ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ ؓ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے :(انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم او کذت ان تفسدھم)”یقیناً جب تو لوگوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا تو انہیں خراب کر دے گا“ یا فرمایا :”قریب ہے تو انہیں خراب کر دے۔“ ابوالدرداء ؓ نے فرمایا :”یہ ایسی بات تھی جو معاوضہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کیساتھ نفع دیا (کہ انہوں نے بیس سال شام کی امارت کی اور بیس سال پورے عالم اسلام پر خلافت کی اور رعایا کو ان سے کوئی خاص شکایت پیدا نہیں ہوئی۔)“ (ابو داؤد ، الادب، باب فی النھی عن التجسس : 3888، وقال الابانی صحیح) (6) جس طرح کوئی دلیل یا قرینہ موجود ہو تو بدگمانی کی گنجائش ہے اسی رطح اسلام کے دشمنوں کی جاسوسی یا امن و امان کی خرابی کا باعث بننے والوں کی جاسوسی بھی جائز ہے، بلکہ مسلم حکمران پر لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کے حلاات سے واقف رہے اور اللہ کی حدود کو پامال کرنے والوں کا سدباب کرتا رہے، مگر اس کے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ محض گمان کی بنا پر تجسس یا کوئی کارروائی کرے۔ (7) ولا یغتب بعضکم بعضاً :(لایعتب“ (غ، ی ، ب) سے باب افتعال ہے :”اغتاب یغتاب اغتیباباً“ کسی کے غائب ہونے کی حالت میں اس کی وہ بات کرنا جس کا ذکر اسے ناپسند ہو۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(اتدرون ما الغیۃ ؟) (”کیا تم جانتے ہو غیب کیا ہے ؟“ انہوں نے کہا :”اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا :(ذکرک اخاک بما یکرہ))”تمہارا اپنے بھائی کا ذکر ایسی چیز کیساتھ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔“ عرض کیا گیا :”آپ یہ بتائیں کہ اگر میرے بھئای میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں (تو کیا پھر بھی غیب ہے)“ آپ ﷺ نے فرمایا :(ان کان فیہ ماتقول فقداغتبتہ وان لم یکن فیہ فقد بھتہ) (مسلم ، البر والصلۃ ، باب تحریم الغیۃ :2589)”اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگیا ا۔“ (8) ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ : اس جملے میں غیبت سے کئی طریقوں سے شدید نفرت دلائی گئی ہے۔ چناچہ اس میں غیبت کے ساتھ کسی بھائی کی عزت و آبرو تار تار کرنے کو انسان کا گوشت کھانا قرار دیا، پھر کسی دوسرے انسان کا نہیں ، بلکہ اپنے بھائی کا اور وہ بھی زندہ کا نہیں ب ل کہ مردہ بھائی کا۔ پھر ایسی شدید قابل نفرت چیز سے محبت کرنے کی عار دلاتے ہوئے پوچھا کہ اتنی گندی اور مکروہ چیز سے تو شدید نفرت ہونی چاہیے تھی، تو کیا تم نفرت کے بجائے اس سے محبت کرتے ہو۔“ پھر ”احدکم“ فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایک یہ پسند کرتا ہے ؟ مطلب یہ کہ لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک بیھ یہ پسند نہیں کرے گا تو تم میں سے کوئی ایک یہ کام کیوں کرے ! ؟ (9) فکرھتموہ : یعنی اگر تمہارے سامنے یہ چیز پیش کی جائے تو یقینا تم اس سے نفرت کرو گے۔ (10) غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ساتھ تشبیہ اس لئے دی ہے کہ جس طرح مردہ اپنا گوشت کھانے سے کسی کو ہٹا نہیں سکتا اسی طرح جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ (11) جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسے سننا بھی حرام ہے، کیونکہ سننے والا بھی غیب میں برابر کا شریک ہے، اگر وہ خاموش رہ کر تائید نہ کرے تو غیبت کرنے والے کو اس کام کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی۔ دونوں ہی اپنے مردہ بھائی گوشت سے لذت حاصل کررہے ہیں، ایک غیبت کر کے اور دوسرا اسے سن کر۔ اس لئے غیبت سننے سے بھی بہت پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ اپنے مسلم بھائی کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے غیبت کرنے والے کو اس سے منع کرنا چاہیے۔ (12) واتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم : یعنی اللہ کا ڈر ہی ہے جو ان کاموں سے آدمی کو باز رکھ سکتا ہے جن سے ان آیات میں منع فرمایا گیا ہے، وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ اس لئے اللہ سے ڈرو اور ان تمام گناہوں سے توبہ کرو، یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ (13) نووی نے ”الاذکار“ میں غیبت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :”خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین اور بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق، غضر اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے، تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشارہ خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے ، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کیساتھ ، غیبت میں شامل ہے۔“ بدن کی غیبت مثلاً اس کی تنقیص کیلئے اندھا، لنگڑا، کانا گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ اسے فاسق ، چور، خائن ، ظالم، نماز میں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان یا بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے باے میں مثلاً اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً اسے بدخلق ، متکبر، ریا کار جلد باز، بزدل یا سٹریل قرار دے۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً جولاہا، موچی، کالا حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان ، ہاتھ اور جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے، مثلاً اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت، جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیب ہے اور حرام ہے۔ (14) بعض اوقات کسی مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہوجاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جاسکتا ہے۔ قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوسکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہ۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ مواقع گنوائے ہیں :(1) ظلم پر فریاد، یعنی مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لایحب اللہ الجھر بالسوآء من القول الا من ظلم) (النسائ :138)”اللہ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔ ‘ ‘ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(فان لصاحب الحق مقالاً) (بخاری، الاستقراض، باب استقراض الابل :2390)”یقیناً حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔“ بہتر یہ ہے کہ وہ بادشاہ یا قاضی یا کسی ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کرسکتا ہ۔ (2) کسی گناہ یا برے کام سے روکنے کے لئے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔ اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذیل ہو توی ہ جائز نہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔ (2) فتویٰ لینے کے لئے مفتی کے سامنے کسی کا نقص ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ ؓ نے اپنے خاوند ابوسفیان ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا :”ابوسفیان بخیل آدمی ہے (مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں اگر میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے لوں ؟“ آپ نے فرمایا :(خذی انت و بنوک مایکفیک بالمعروف) (بخاری، البیوع ، باب من اجری امر الامصار…: 2211، 5363) ”تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے ہند ؓ کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے پر منع نہیں فرمایا : کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔ (4) مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے اور انہیں شر سے بچانے کیلئے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے فرمایا، (ائذنوا لہ، بئس اخوالعشیرۃ) (بخاری، الادب، باب مایجوز من اغتیاب…6053)”اسے اجازت دے دو ، یہ خاندان کا برا آدمی ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال کیا۔ مسلمانوں کی خیر خواہی میں اور انہیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آجاتیہیں، مثلاً حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ دوسرے جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، ک اور بار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتادے۔ فاطمہ بنت قیس ؓ نے معاویہ اور ابوجہم ؓ میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :(اما ابوجھم فلا یضع عصاہ عن عاتفہ، وما معاویۃ فصعلوک لا مال لہ ، انکحی اسامۃ بن زید) (مسلم ، الطلاق، المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا :1380) ”ابو جہم تو عورتوں کو بہت مارتا ہے اور معاویہ کنگال آدمی ہے، اس کے پاس کچھ نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔“ اور صحیح مشروہ دینا مومن کا حق ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(واذا استنصحک فانصح لہ) (مسلم ، السلام ، باب من حق المسلم رد السام : 5/2162)”اور جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔“ (5) جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، علانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی مں حسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے، خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو، مثلاً اعمش (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہں) ، ا عرج (لنگڑا) اصم (بہرا) اور اعمی (نابینا) وغیرہ۔ شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہ۔ (15) قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولایغتب بعضکم بعضاً) کہ مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔ اسی طرح ”ذکرک اخاک بما یکرہ“ سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے، کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں، اس لئے اس کی غیبت میں کوئی گناہ نہیں۔
Top