Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے لوگو ! بیشک ہم نے تمہیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنادیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
(1) یایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی : پچھلی آیت میں جن چھ گناہوں سے منع فرمایا ان کا بنیادی سبب اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھنا ہے۔ جاہلیت میں اپنے قبیلے کی خوبیوں پر فخر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی بیماری عام تھی۔ اس کی وجہ سے ہر قبیلے کے شاعر اور خطیب اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے قبیلے کو استہزاء تمسخر اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ، اس کے لئے وہ ان کے عیب تلاش کرتے، جاسوسی کرتے، غیبت، بہتان اور ہجو کا بازار گرم رکھتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے کئی قبیلوں کو بالکل ہی لوگوں کی نگاہوں سے گرا دیا۔ دنیا میں اپنی برتری پر فخر کا باعث کسی خاص قبیلے یا قوم میں پیدا ہونا ہی نہیں رہا، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کو اپنے لئے باعث فخر اور دوسروں پر برتری کی دلیل قرار دیا گیا۔ چناچہ رنگ و نسل، وطن اور زبان کی بنا پر نوع انسان تقسیم ہوئی اور ہر طبقے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور دوسروں کو حقیر قرار دیا، جس کے نتیجے میں بیشمار جنگیں ہوئیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔ وطن سے بےوطن ہوئے، غربت، بیماری اور بےآبروئی کا نشانہ بنے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں ”یایھا الذین امنوا“ کے ساتھ خطاب کے بعد یہاں تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ”یایھا الناس“ کہ اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا علیہما السلام) سے پیدا کیا ہے، اس لئے انسان ہونے میں تم سب برابر ہ۔ کسی خاص قوم، قبیلے یا ملک میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں، کیونکہ اصل سب کی ایک ہے۔ پھر کسی قوم، ملک یا قیبلے میں پیدا ہونے یا کسی رنگ یا زبان والاہونے میں کسی کا اپنا کوئی دخل یا اختیار نہیں، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لئے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت یا عطیہ تو ہوسکتی ہے، جس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، مگر دوسروں پر برتری کا باعث نہیں ہوسکتی، کیونکہ برتری اس چیز میں کامیابی کی بدولت حاصل ہوتی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور وہ ہے اللہ کا تقویٰ۔ اس لئے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ اس کے بغیر کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر یا آزاد کو غلام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ہاں تقویٰ کے ساتھ فضیلت کی کوئی اور جہ بھی جمع ہوجائے تو اسے برتری حاصل ہوگی، جیسے کسی کو متقی ہونے کیساتھ قریشی یا ہاشمی ہونے کا شرف بھی حاصل ہو، یا ایسی قوم کا فرد ہونے کا جو شجاعت یا ذہانت یا کسی اور خبوی میں معروف ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی قرآن کی قرأت میں برابر ہوں تو امامت کے وقت ان میں سے بڑی عمر والے کو جوان پر مقدم کیا جائے گا۔ (2) وجعلنکم شعوباً و قبآئل :”شعوباً“ ”شعب“ (شین کے فتحہ کے ستاھ) کی جمع ہے، بہت بڑا قبیلہ ، جیسے ربیعہ مضر، اوس اور خزرج وغیرہ۔ یہ ان چھ طبقوں میں سب سے پہلا طبقہ ہے جن میں عرب تقسیم ہوتے ہیں۔ وہ چھ طبقے یہ ہیں۔ (1) شعب (2) قبیلہ (3) عمارہ (4) بطن (5) فخذ (6) فصیلہ۔ شعب میں کئی قبائل ہوتے ہیں، قبیلہ میں کئی عمائر، عمارہ میں کئی بطون، بطن میں کئی افخاذ، اور فخذ میں کئی فصائل ہوتے ہیں۔ چناچہ عرب میں خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ، قریش عمارہ، قصی بطن، ہاشم فخذ اور عباس فصلیہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک لفظ دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ شعب کا معنی شاخ ہے، اسے شعب اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان سے قبائل کی شاخیں نلکتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان چھ طبقوں میں سے تین کا ذکر آیا ہے، دو کا اس آیت میں اور ایک کا سورة معارج میں، فرمایا :(وفصیلتہ التی تسویہ) (المعارج : 13)”اور اپنے خاندان کو جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔“ (قرطبی و شنقیطی) (3) لتعارفوا : یعنی قوموں، قبیلوں یا خاندانوں میں تقسیم کا مطلب کسی کی برتری نہیں، بلکہ ہم نے یہ تقسیم تمہاری ایک دوسرے سے پہچان کے لئے بنائی ہے۔ مثلاً عبداللہ نا مکہ کئی آدمی ہیں، ان میں سے ایک کی تعیین قریشی، اس کے بعد ہاشمی اور اس کے بعد عباسیکے ساتھ ہوسکتی ہے۔ اس پہچان ہی کے ذریعے سے آدمی اپنی رشتہ داری سے آگاہ ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا اور صلہ رحمی کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(تعلموا من انسابکم ماتصلون بہ ارحامکم ، فان صلہ الرحیم مجۃ فی الاھل مثراۃ فی المال ، منساہ“ فی الائر) (ترمذی، البروالصلہۃ باب ماجاء فی تعلیم النسب :1989 ء عن ابی ہریرہ ؓ وقال الالبانی صحیح) (”اپنے نسب سیکھو، جن کے ذریعے سے تم اپنی رشتہ داریاں ملاؤ ، کیونکہ رشتہ داری کو ملانا رشتہ داروں میں محبت، خ مال میں ثروت اور زندگی میں اضافے کا باعث ہے۔“ (4) ان اکرمکم عند اللہ ا تقکم : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان اللہ قد اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ وفخر ھا بالاباء مومن تقی وفاجر شقی انتم بنو آدم و آدم من تراب لیدعن رجال فخرھم ب اقوام انما ھم فحم من فحم جھنم، اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان التی تدفع بانفھا النن) (ابو داؤد، الادب، باب فی التفاخر بالاحساب :5116، عن ابی ھریۃ ؓ وقال الالبانی صحیح)”اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اس کے آباؤ اجداد پر فخر کو ختم کردیا ہے۔ (آدمی دو ہی قسم کے ہیں) متوقی مومن ہے یا بدبخت فاجر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ کچھ آدمی ایسے لوگوں پر اپنا فخر ترک کردیں گے جو جہنم کے کوئلوں میں سے محض ایک کوئلہ ہیں، یا پھر وہ (فخر کرنے والے) اللہ تعالیٰ کے سامنے پاخانے کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے، جو گندگی کو اپنی ناک کے ساتھ دھکیلتے رہتے ہیں۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا :(ای الناس اکرم ؟)”لوگوں میں سب سے عزت والا کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :(اکرمھم عند اللہ اتقاھم)”ان میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ فرمایا :(فاکرم الناس یوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن خلیل اللہ)”تو سب سے زیادہ عزت والے یوسف ؑ ہیں جو اللہ کے نبی ہیں، نبی کے بیٹے ہیں، دادا بھی نبی ہے اور پردادا اللہ کا خلیل ہے۔“ انہوں نے کہا :”ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا :(فعن معادن العرب تسالونی ؟)”تو پھر تم مجھ سے عرب کے خاندانوں کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا :”جی ہاں !“ آپ ﷺ نے فرمایا :(فخیار کم فی الجھلیۃ خیرکم فی الاسلام اذا فقھوا) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(لقد کان فی یوسف واخوتہ…): 7289)”تو جاہلیت میں جو تم میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں تم سب سے بہتر ہیں، جب وہ (دین کی) سمجھ حاصل کرلیں۔“ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس صحابی نے بیان کیا جس نے ایام تشریق کے درمیان والے دن میں رسول اللہ ں کا خطبہ سنا، آپ ﷺ نے فرمایا :(یا ایھا الناس ! الا ان ربکم واحد، وان اباکم واحد، الا لافضل لعربی علی اعجمی، ولا لعجمی علی عربی ، ولا لاحمر علی اسود، ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ) (مسند احمد : 5/711، ح : 23389، قال شعیب الارنوط اسنادہ صحیح)”اے لوگو ! سن لو ! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ سن لو ! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر ، مگر تقویٰ کی بنا پر۔“ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان اللہ لاینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم) (مسلم البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم…: 33/2563)”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہاری مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔“ عیاض بن حمار مجاشعی ؓ نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(وان اللہ اوخی الی ان تواضعوا حتی لا یفخر احد علی احد ولا یبغی احد علی احد) (مسلم، الجنۃ وصفۃ تعیمھا، باب ال صفات التی یعرف بھا…: 63/2865)”اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ آپس میں تواضح اختیار کرو، حتی کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔ (5) اہل علم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح میں کفو (جوڑ) ہونے کے لئے اسلام کے علاوہ کوئی شرط معتبر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت حجش ؓ کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ ؓ سے کردیا۔ اس لیء یہ جو مشہور ہے کہ سید لڑکی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہوسکتا، درست نہیں۔ ویسے فاطمہ ؓ کی اولاد کو لفظ ”سید“ کے ساتھ خاص کرنا بھی محض رواج ہے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کا چچا ہونے کے باوجود ابولہب جہنمی ہے اور غلام ہونے کے باوجود بلال ؓ کے جوتوں کی آواز جنت میں رسول اللہ ﷺ کے آگے (بطور خادم) سنائی دے رہی ہے اور جابر ؓ نے بیان کیا کہ عمر ؓ فرمایا کرتے تھے :(ابوبکر سیدنا، واعتق سیدنا یعنی بلالاً) (بخاری، فضائل، اصحاب النبی ﷺ باب مناقب بلال بن رباح…: 3853)”ابوبکر ہمارا سید ہے اور اس نے ہمارے سید بلال کو آزاد کیا۔“ (6) ان الہر علیم خبیر : یعنی اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے اولا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کے دل میں تقویٰ زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اسے سب سے زیادہ معزز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تو جب کسی کو دلوں کا حال معلوم ہی نہیں تو کوئی کسی پر فخر کیسے کرسکتا ہے اور کسی کو حقیر کیوں جانتا ہے ! ؟
Top