Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 17
یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
يَمُنُّوْنَ : وہ احسان رکھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ : کہ وہ اسلام لائے قُلْ : فرمادیں لَّا تَمُنُّوْا : نہ احسان رکھو تم عَلَيَّ : مجھ پر اِسْلَامَكُمْ ۚ : اپنے اسلام لانے کا بَلِ اللّٰهُ : بلکہ اللہ يَمُنُّ : احسان رکھتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْ هَدٰىكُمْ : کہ اس نے ہدایت دی تمہیں لِلْاِيْمَانِ : ایمان کی طرف اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
وہ تجھ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے لیے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔
(1) یمنون علیک ان اسلموا : اعراب یہ کہتے ہیں کہ ”امنا“ (ہم ایمان لے آئے) دراصل رسول اللہ ﷺ پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان جتلا رہے تھے۔ ان کے خیال میں یہ ان کا رسول اللہ ﷺ پر احسان تھا جس کا آپ ﷺ کو خیال رکھنا چاہیے تھا اور اس کے بدلے میں ان کے تقاضے اور فرمائشیں پوری کرنی چاہیے تھیں، جیسے چودھری اور سردار کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اس پر احسان رکھتے ہیں اور پارٹی کے سربراہ سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ (2) قل لا تمنوا علی اسلامک : اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت رکھو، کیونکہ کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو ہے، اگر نہیں ہوتا تو اس کا نقصان بھی اسی کو ہے، جیسا کہ فرمایا :(من عمل صالحاً فلنفسہ ومن آساء فعلیھا) (حم السجدہ : 36)”جس نے کوئی نیک عمل کیا تو وہ اس کے لئے ہے اور جس نے برائی کی تو وہ اسی پر ہے۔“ تمہارے اسلام لا نے یا نہ لانے سے میرا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ (2) بل اللہ یمن علیکم ان ھدیکم : یہاں بظاہر یہ کہ کہنا چاہیے تھا کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان مت رکھو، بلکہ میرا تم پر احسان ہے کہ میری وجہ سے تم اسلام لائے، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کی تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا احسان جتلاتا اور یاد کرواتا ہے ہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی ہدایت دی، یعنی اس کی توفیق بخشی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ بھی اگرچہ ہدایت دیتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا :(وانک لتھدی الی فراط مستقیم) (الشوری : 52)”اور بلاشبہ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائیک رتا ہے۔“ مگر آپ صرف صراط مستقیم کی راہنمائی کرسکتے ہیں، وہ ہدایت جو صراط مستقیم پر چلنے کا نام ہے اس کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس لئے فرمایا :(انک لاتھدی من احبیت ولکن اللہ یھدی من یشآئ) (القصص : 56)”بیشک تو ہدیات نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ اور اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کی توفیق دی تو اس میں سر اسر تمہارا فائدہ ہے، اللہ تعالیٰ کو تم کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تم ہی کیا، اگر ساری مخلوق بھی جمع ہوجائے تو نہ اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے، پھر اس پر یا اس کے رسول پر احسان رکھنے کا کیا مطلب ؟ (4) ان کنتم صدقین : یعنی اللہ تعالیٰ کا ایمان کی ہدایت دینے کا احسان بھی تم پر اسی صورت میں ہے اگر تم اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہو، ورنہ ابھی تک تمہارے دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔
Top