Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 18
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے غَيْبَ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌۢ : دیکھنے والا بِمَا تَعْمَلُوْنَ : وہ جو تم کرتے ہو
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو جانتا ہے اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔
(ان اللہ یعلم غیب السموت والارض…: اس سے پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ تمام چیزیں جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ اس آیت میں اسی کی مزید تاکید فرمائی کہ یہ نہ سمجھنا کہ وہ آسمان و زمین کی انھی اشیاء کو جانتا ہے جو ظاہر ہیں، بلکہ وہ ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو نگاہوں سے غائب ہیں، خواہ پہلے گزر چکی ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گی اور تم جو کچھ کر رہے ہو یا آئندہ کرو گے اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔ نظم الدرر میں ہے، قشیری نے کہا :”جو شخص یہاں ٹھہر کر تھوڑا سا غور و فکر کرے گا اس کا عیش مکدر ہوجائے گا، کیونکہ کسی کو خبر نہیں کہ اس کے غیب میں کیا لکھا ہے اور اس کا انجام کیا ہونے والا ہے اور ایمان کی نعمت اس کے پاس موت تک رہے گی یا نہیں۔ پھر دعویٰ کس بات کا اور احسان کیسا ؟ یہی معنی اس شعر میں ادا ہوا ہے۔ ابکی و ھل تدرین ما یبکینی ابکی حذراً ان تفارقینی و تقطعی حبلی و تھجرینی ”میں روتا ہوں اور کیا تو جانتی ہے کہ مجھے کیا چیز رلاتی ہے ؟ میں اس ڈر سے روتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا نہ ہوجائے۔ مجھ سے قطع تعلق نہ کرلے اور مجھجے چھوڑ نہ دے۔“ ابن کثیر ؒ نے فرمایا :’ رسول اللہ ﷺ بڑے مجمعوں کے مواقع پر عموماً اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، مثلاً عید اور جمعہ۔ اس کے علاوہ فجر کی نماز میں بھی اس کی قرأت فرمایا کرتے تھے، کیونکہ یہ ابتدائے خلق، بعث، نشور، معاد، قیام، حساب، جنت، جہنم، ثواب، عقاب اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہے۔“ (ابن کثیر) عبید اللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ؓ نے ابو واقد لیثی ؓ سے پوچھا :”رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں کیا پ ڑھا کرتے تھے ؟“ تو انہوں نے کہا : ”آپ ﷺ دونوں نمازوں میں ”ق والقرآن المجید“ اور ”اقتربت الساعۃ“ پڑھا کرتے تھے۔“ (مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ : 883) جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں :(ان النبی ﷺ کان یقرا فی الفجرب (ق والقرآن المجید) وکان صلاتہ بعد تخفیفا) (مسلم، الصلاۃ ، باب القراء ۃ فی الصبح : 358)”رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز میں سورة ق پڑھا کرتے تھے، اس کے باوجود آپ ﷺ کی نماز ہلکی ہوتی تھی۔“ بعض علماء نے ”وکان صلاتہ بعد تخفیفا“ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اس کے بعد کی باقی نمازیں ہلکی ہوتی تھیں۔
Top