Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
(1) یایھا الذین امنوا ان جآء کم فاسق بنبا فتبینوا : ”فاسق“ جو دین کی کسی حد سے یا تمام حدوں سے نکل جائے، جن کی پابندی لازم ہے۔ اس کا اشتقاق ”فسق الرطب“ (تازہ کھجور چھلکے سے باہر نکل گئی، یعنی پھٹ گئی) سے ہے۔ اس کا اکثر استعمال نافرمانی کے مرتکب مسلمان پر ہوتا ہے، کافر پر بھی یہ لفظ بول لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(افمن کان مومنا کمن کان فاسقاً لایستون) (السجدۃ :18)”تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو ؟ برابر نہیں ہوتے۔“”نبا“ کوئی اہم خبر۔ راغب نے فرمایا :”خبر کو ”نبا“ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے کوئی عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہو، ایسی ہی خبر سے کسی بات کا یقین یا غلبہ ظن حاصل ہوتا ہے۔“ ‘”فتبینوا“ ”تبین یتبین“ (تفغل) لازم بھی آتا ہے، یعنی کسی چیز کا خوب واضح ہوجانا اور متعدی بھی، یعنی کسی چیز پر پوری طرح غور و فکر اور اس کی تحقیق کرنا، اس کی حقیقت معلوم کرلینا، یہاں متعدی کے معنی میں ہے۔ اکثر قراءتوں میں ”فتبینوا“ ہے، حمزہ اور کسائی کی قرأت میں ”فتبنوا“ ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔ (2) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ادب کی تعلیم دی ہے جس کا اہتمام ان کے دین و دنیا کے معاملات میں نہایت ضروری ہے اور جس کی پابندی نہ کرنے سے بےپناہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ وہ یہ کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق، جو کھلم کھلا دین کی حد پامال کرنے والا ہے، کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اسے سنتے ہی سچا نہ سمجھ لیں اور نہ ہی پوری تحقیق کے بغیر اس کی بات کا اعتبار کریں، کیونکہ جو فسق سے پرہیز نہیں کرتا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ (2) ان تصیبوا قوماً بجھالۃ : اس سے معلوم ہوا کہ فاسق کی خبر پر بلاتحقیق عمل کرنا جہالت ہے، جو خطا سے بڑھ کر ہے، کیونکہ مجتہد اگر غلطی کرے تو اسے مخطی کہہ سکتے ہیں، جاہل نہیں، جب کہ بلاتحقیق فاسق کے قول پر فیصلہ کرنے والا اگر غلط فیصلہ کرے تو وہ جاہل ہے۔ (رازی) یعنی ایسا نہ ہو کہ تم کسی فاسق کی خبر پر بلاتحقیق کوئی کاروائی کر گزرو اور لاعلمی میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا دو ، ان پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا قتلک ردو، ان کی غیبت کر بیٹھو یا ان سے قطع تعلق کرلو، غرض تمہاری طرف سے انہیں کوئی بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کتنے ہی فتنے اور فساد ہیں جو بلاتحقیق ایسی خبروں پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بات بگڑ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ (4) فتصبحوا علی مافعلتم ندمین : پھر تم اس پر پشیمان ہوجاؤ، کیونکہ جلد بازی اور بلاتحقیق کام کا نتیجہ پشیمانی ہی ہے۔ (5) یہ آیت اس عظیم الشان علم کی بنیاد ہے جسے اصول حدیث کہا جاتا ہے، جو ہماری امت کی خصوصیت ہے اور جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے افعال و اقوال اور احوال و تقریرات محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور قیامت تک پہنچتے جائیں گے۔ اس علم کی تکمیل کے لئے امت مسلمہ نے ایک لاکھ سے زیادہ راویوں کے حالات زندگی، ان کا صدق و کذب، عدالت و فسق حافظ ہونا یا نہ ہونا وغیرہ سب کچھ محفوظ کردیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی خبر بیان کرنے والا فاسق ہے یا عادل اگر فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق کی جائے گی، اگر کسی دوسرے ذریعے سے اس کا درست ہونا ثابت ہوجائے تو اسے مانل یا جائے گا ورنہ اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر خبر دینے والا عادل ہے تو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں اور اس کی خبر قبول کی جائے گی، خواہ خبر دینے والا ایک ہی ہو۔ اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجہول آدمی کی خبر بھی بلاتحقیق قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس کے فاسق ہونے کا احتمال ہے۔ (6) آیت کے الفاظ میں ”فاسق“ اور ”بنیا“ دونوں نکرہ ہیں، اس میں کسی خاص شخص کو متعین نہیں کیا گیا، بلکہ ایک عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ کوء فاسق کوئی بھی خبر لے کر تمہارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کرلو۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی، جنہیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ یہ عثمان بن عفان ؓ کے ماں کی طرف سے بھایء تھے۔ بنو مطلق اور ان کے قبیلہ میں اسلام سے پہلے سے دشمنی چلی آرہی تھی، وہ لوگ مسلح ہو کر استقبال کیلئے آئے تو یہ ڈر گئے کہ شاید یہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور وہیں سے واپس آکر رسول اللہ ﷺ سے ش کیا ت کی کہ بنو مصطلق نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے، بلکہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر بنو مصطلق کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، ابھی یہ لشکر راستے میں تھا کہ ادھر سے بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار ؓ (ام المومنین جویریہ ؓ کے والد) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے لشکر والوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کدھر جا رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری طرف ہی جا رہے ہیں۔ انہوں نے سبب پوچھا تو لشکروں والوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے ولید بن عقبہ ؓ کو تمہارے پاس بھیجا اور تم نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا، بلکہ اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے ! ولید نہ ہمارے پاس آیا اور نہ ہم نے اس کی شکل دیکھی۔ پھر یہی بات انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہی اور مزید کہا کہ ہم تو خود آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کی طرف سے کوئی زکوۃ وصول کرنے نہیں پہنچا اور ہم ڈر گئیک ہ کہیں آپ ہم سے ناراض نہ ہوگئیہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ ان روایات کا خلاصہ ہے جو ابن کثیر وغیرہ نے قنل فرمائی ہیں۔ 7۔ عام مفسرین نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ولید بن عقبہ ؓ کو فاسق اور ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بعض کج دماغوں نے اسے اس مسلم قاعدے پر طعن کا ذریعہ بنایا ہے کہ اصحاب رسول ﷺ سب کے سب عادل ہیں اور کسی سے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ ثابت نہیں، اس لئے رسول اللہ ﷺ کا صحابی کوئی بھی ہو اس کی بیان کردہ ہر روایت معتبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کو ولید بن عقبہ ؓ سے متعلق قرار دینے والی کسی بھی روایت کی سند صحیح نہیں۔ ابن کثیر ؒ نے اس مقام پر چادر روایتیں نقل کی ہیں اور ان میں سب سے بہتر حارث بن ضرار خزاعی ؓ کی روایت کو قرار دیا ہے۔ اس کی سند یہ ہے :”قال الامام احمد فی مسندہ حدثنا محمد بن سابق حدثنا عیسیٰ بن دینار حدثنا ابی انہ سمع الحارث بن ضرار الخراعی قال“ (مسند احمد :289/3، ح :18359) تفسیر ابن کثیر کے محقق سامی بن محمد سلامہ لکھتے ہیں :”بہت سے مفسرین اس قول کی طرف گئے ہیں (کہ یہ آیت ولید بن عقبہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے) حالانکہ اس قول میں نظر ہے، کیونکہ جتنی بھی روایات میں یہ قصہ بیان ہوا ہے وہ سب معلول ہیں (ان میں خرابی ہے) ان میں سب سے بہتر امام احمد کی حارث بن ضرار خزاعی ؓ سے روایت ہے۔ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اور قاضی ابوبکر بن العربی نے اپنی کتاب ”العواصم من القواصم (ص : 102)“ میں اس قصے کا انکار کیا ہے۔“ تفسیر ابن کثیر کی تخریج ”ھدایۃ المستنیر“ (تالیف ابو عبدالرحمٰن عادل بن یوسف العزازی) میں ہے :”اس روایت میں دینار کوفی ہے، حافظ نے فرمایا، مقبول ہے، یعنی جب اس کی کوئی متابعت موجود ہو۔“ ظاہر ہے یہاں کسی نے اس کی متابعت نہیں کی، اس لئے اس کی یہ روایت قبول نہیں۔ مسند احمد کے محققین نے اس روایت پر لکھا ہے :”حارث بن ضرار کے اسلام کا قصہ چھوڑ کر باقی روایت اپنے شواہد کی وجہ سے حسن ہے اور یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ عیسیٰ کا والد دینار مجہول ہے۔ وہ کوفے کا رہنے والا ہے اور عمرو بن حارث کا مولیٰ ہے، اس سے اس کے بیٹے عیسیٰ نے اکیلے ہی یہ روایت بیان کی ہے اور ابن المدینی نے فرمایا :”لا اغرفہ“ (میں اسے نہیں پہچانتا) اس کے باوجود ابن حبان نے اس کا ذکر ”الثقات“ میں کیا ہے۔“ اس آیت کے ولید بن عقبہ ؓ کے متعلق نازل ہونے کی دوسری روایت ابن کثیر نے ام سلمہ ؓ کو بیان کی ہے۔ سے ضعیف ہے۔“ ابن کثیر میں اس مفہوم کی تیسری روایت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، جو عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ چوتھی روایت مجاہد اور قتادہ نے بیان کی ہے جو تابعی ہیں اور ان کی روایت مرسل ہے جو حجت نہیں۔ آپ غور فرمائیں ! یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی سب سے بہتر روایت کو حسن کہنے والے بھی اس کی سند کے ضعیف ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، حسن صرف شواہد کی وجہ سے کہتے ہیں اور شواہد بھی ایسے کہ سب کی سند ضعیف ہے۔ ایسی کمزور روایت کے ساتھ ایک صحابی کو فاسق قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے، جو اس جماعت کا فرد ہے جسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی سند حاصل ہوچکی ہے۔ (8) اگر اس قصے کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے ولید بن عقبہ ؓ کا فاسق ہونا لازم نہیں آتا۔ سب سے پہلے تو رسول اللہ ﷺ کا صدقات کی وصولی کے لئے ان کا انتخاب ان کے فاسق ہونے کی نفی کرتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایسے اعمال کو صدقات وغیرہ کی وصولی پر مقرر فرماتے تھے جو نہایت امین ہوتے تھے، جیسا کہ ابوعبیدہ امین ہذہ الامہ کو یمن کی طرف بھیجنے سے ظاہر ہے۔ پھر ولید ؓ کو یہ کہنا کہ بنو مصطلق نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور میرے قتل کا ارادہ کیا ہے، اس کی وجہ خود اس روایت میں موجود ہے کہ ان کے درمیان سابقہ دشمین موجود تھی اور مسلح افراد کی بہت بڑی تعداد کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے قتل کرنے آئے ہیں اور زکوۃ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسا گمان پیدا ہونا فطری بات ہے۔ آپ اسے گمان کی غلطی کہہ سکتے ہیں مگر جھوٹ یا فسق نہیں کہہ سکتے۔ رہا آیت کا نزول تو اس میں نہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولید فاسق ہے نہ اس کے رسول ﷺ نے یہ فرمایا۔ آیت میں مسلمانوں کو ایک حکم دیا گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کریں، اندھا دھند اس پر کارروائی نہ کریں۔ (9) شیخ عبدالرحمان معلی یمانی نے ”الانوار الکاشفہ (ص : 263)“ میں ولید بن عقبہ ؓ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ولید بن عقبہ ؓ سے نبی ﷺ کی کوئی حدیث منقول ہی نہیں، اس لئے اس واقعہ سے کسی صحابی کی نقل کردہ روایت کا مردود ہونا لازم ہی نہیں آتا، کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ سے کوئی روایت نقل ہی نہیں کی۔ شیخ معلمی نے ان سے مروی دوسری روایات کے علاوہ اس روایت کی بھی نفی کی ہے جو مسند احمد میں ہے کہ ولید ؓ بیان کرتے ہیں :(لما فتح رسول اللہ ﷺ مکہ جعل اھل مکہ یاتونہ بصبیانھم فیمسع علی رؤوسھم ویدعولھم، فجی بی الیہ وانی مطلب بالخلوق، فلم یمس علی راسی ، ولم یمنعہ من ذلک الا ان امی خلقتنی، بالخلوق فلم یمشنی من اجل الخلوق) (مسند احمد :32/3، ح :16389)”جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو اہل مکہ اپنے بچے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے لگے، آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لئے برکت کی دعا کرتے۔ مجھے بھی آپ کے پاس لایا گیا مگر آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا اور آپ کے ہاتھ نہ پھیرنے کی وجہ یہی بنی کہ میری ماں نے مجھے خلوق (زعفران سے مرکب ایک خوشبو) لگائی تھی تو آپ ﷺ نے خلوق کی وجہ سے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔“ مسند احمد کے محققین نے لکھا :”اس کی سند عبداللہ ہمدانی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کنیت اس کی ابو موسیٰ ہے۔ اس سے روایت میں ثابت بن حجاج الکلابی منفرد ہے اور ذہبی اور ابن حجر نے تقریب میں اسے مجہول کہا ہے۔ بخاری نے ”تاریخ کبیر“ (5/224) میں کہا ہے :”لایصخ حدیثہ“ (اس کی حدیث صحیح نہیں) اور ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ ابو موسیٰ مجہول ہے اور یہ خبر منکر ہے، صحیح نہیں۔“ اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو ولید بن عقبہ ؓ کو فاسق کہنے کی بنیادی ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے فتح مکہ کے موقع پر ولید کا بچہ ہونا ثابت ہوتا ہے، جسے صدقات کا عامل بنا کر بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 10۔ بعض لوگوں نے صحیح مسلم (1707) وغیرہ کی اس روایت کی وجہ سے ولید بن عقبہ ؓ کو فاسق قرار دیا ہے جس میں ہے کہ انہوں نے شراب پی کر صبح کی جماعت دو رکعتیں پڑھانے کے بعد کہا کہ مزید پڑھاؤں، جس پر عثمان ؓ نے ان پر شراب کی حد لگائی۔ واضح رہے کہ بعض روایات میں دو کے بجائے چار رکعتیں پڑھانے کا ذکر ہے مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں۔ بعض اہل علم نے لکھا :”علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا :”اس معاملے میں حق بات ہے وہ جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں، ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں، یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی، لیکن اہل سنت و الجماعہ کا عقیدہ قرآن و سنت کی نصوص کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کر کے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ فرما دیا ہے : فرمایا :(رضی اللہ عنھم و رضواعنہ واعدالھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم) (التوبۃ : 100)”اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ ک ی رضا گناہ کے معاف ہونے کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلیٰ نے فرمایا :”رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے، وہ پانی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات ان کاموں پر ہوگی جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے۔“ (کذا فی الصارم المسلول لابن تیمیۃ) خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی عظیم الشان جماعت میں سے اگر کسی سے کبھی کوئی گناہ سر زد ہوا بھی ہے تو اسے فوراً توبہ کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم ﷺ کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی، خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سر زد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا۔ ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم ﷺ اور سالام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کیلئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملت، ی ان بیشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف ، خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کردینا روایات حدیث میں مشوہر و معروف ہے اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے قرآن کے ارشاد کے مطابق اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفار ہ ہوجاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : 113)”بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔“ خصوصاً جب ان کی حسنات عام نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :(المشھد رجل منھم مع رسول اللہ ﷺ یعبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم عمرہ ولو عمر عمر نوح) (ابوداؤد، السنتہۃ باب فی الخلفاء : 3650 قال الالبانی صحیح) ”اللہ کی قسم ! ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرے پر غبار پڑگیا ہو، تم میں سے کسی شخص کی عمر بھر کی عبادت و اطاعت سے افضل ہے۔ اگرچہ اس کو نوح ؑ کی عمر دے دی گئی ہو۔“ اس لئے ان سے صدور گناہ کے وقتا گرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لئے مقرر تھا، مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے۔ اس لئے اگر بنی کریم ﷺ کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سرزد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا ہو تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لئے ہمیشہ کا حکم سمجھ کر معاذ اللہ فاسق کہا جائے۔“ (کذافی الروح)
Top