Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 114
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
قَالَ : کہا عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اللّٰهُمَّ : اے اللہ رَبَّنَآ : ہمارے رب اَنْزِلْ : اتار عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان تَكُوْنُ : ہو لَنَا : ہمارے لیے عِيْدًا : عید لِّاَوَّلِنَا : ہمارے پہلوں کے لیے وَاٰخِرِنَا : اور ہمارے پچھلے وَاٰيَةً : اور نشان مِّنْكَ : تجھ سے وَارْزُقْنَا : اور ہمیں روزی دے وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الرّٰزِقِيْنَ : روزی دینے والا
عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اتار، جو ہمارے پہلوں اور ہمارے پچھلوں کے لیے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ۔۔ : یہ انتہا درجے کی عاجزی کے ساتھ دعا ہے کہ ”اللھم“ (اے اللہ !) کے ساتھ ”ربنا“ (اے ہمارے پالنے والے !) بھی ملایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ ؑ نہ اللہ تھے، نہ اللہ کے بیٹے، نہ اللہ کے اختیار رکھنے والے، ان کے حواری بھی ان میں سے کسی چیز کے قائل نہ تھے، ورنہ وہ عیسیٰ ؑ سے دعا کیوں کرواتے اور عیسیٰ ؑ بھی اتنی عاجزی کے ساتھ دعا کیوں کرتے، بلکہ ان کے حواری خود ان سے مائدہ کا مطالبہ کرتے اور وہ خود ہی پورا کردیتے۔ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا : علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ وہ دسترخوان اتوار کے دن اترا، کیونکہ وہ نصرانیوں کی عید ہے، سبت یہودیوں کی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید کا دن جمعہ تھا مگر یہودیوں اور نصرانیوں نے اصل دن میں اختلاف کیا اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر کسی چون و چرا کے بغیر جمعہ کو تسلیم کرلیا۔ [ دیکھیے مسلم، الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الأمۃ۔۔ : 856 ] لفظ عید ”عَادَ یَعُوْدُ“ سے ہے، یعنی ایسی خوشی جو بار بار لوٹ کر آئے، یہ سالانہ بھی ہوسکتی ہے اور ہفتہ وار بھی۔ مسلمانوں کی دو عیدیں سالانہ ہیں اور ایک ہر ساتویں دن عید جمعہ ہے۔ ان کے علاوہ کوئی عید قرآن و سنت سے ثابت نہیں، مثلاً عید میلاد یا عید غدیر وغیرہ، یہ سب خود ساختہ اور بدعت ہیں۔ وَاٰيَةً مِّنْكَ ۚ: یعنی تیری توحید اور تیرے نبی کی رسالت کے حق ہونے پر دلیل قائم ہو۔ (کبیر) وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : کیونکہ حقیقت میں تو ہی روزی دینے والا ہے، تیرے سوا ایک بھی روزی پیدا کرنے والا نہیں، سب تیرا دیا ہوا ہی کھاتے، یا کسی دوسرے کو دیتے ہیں۔
Top