Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اللہ نے فرمایا بیشک میں اسے تم پر اتارنے والا ہوں، پھر جو اس کے بعد تم میں سے ناشکری کرے گا تو بیشک میں اسے عذاب دوں گا، ایسا عذاب کہ وہ جہانوں میں سے کسی ایک کو نہ دوں گا۔
قَال اللّٰهُ اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ۔۔ : علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ دسترخوان اترا یا نہیں، اکثر علماء کا خیال ہے کہ وہ اترا، شوکانی، ابن جریر اور بہت سے علماء نے اسی کو صحیح کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تاکید کے ساتھ فرمانا : (اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ)”یقیناً میں اسے تم پر اتارنے والا ہوں۔“ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اتارا۔ جامع ترمذی میں عمار بن یاسر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مائدہ آسمان سے گوشت روٹی کی صورت میں اترا اور انھیں حکم دیا گیا کہ وہ نہ خیانت کریں اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں، مگر انھوں نے خیانت کی اور ذخیرہ کیا اور کل کے لیے اٹھا رکھا تو انھیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دیا گیا۔“ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة المائدۃ : 3061 ] اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو کسی کو اختلاف کی مجال ہی نہ تھی، مگر شیخ ناصر الدین البانی ؓ نے اس کے حدیث رسول ہونے یا عمار بن یاسر ؓ کا قول ہونے، دونوں باتوں کو ضعیف کہا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ بعد کے الفاظ : (فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ) یہ الفاظ سن کر وہ ڈر گئے اور انھوں نے دعا کا مطالبہ واپس لے لیا۔ یہ قول مجاہد اور حسن بصری کا ہے، ان کی سندوں کو ابن کثیر نے صحیح کہا ہے، مگر یہ بھی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا قول ہے، رسول اللہ ﷺ سے یہ بات بھی ثابت نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مائدہ اترا تھا، وہ اس کا ایک قرینہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ نے مسیح ؑ پر اپنے احسان شمار کیے ہیں، ان کے ساتھ اس واقعہ کو بھی بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور آخر میں ان سے سوال کیا ہے کہ کیا تم نے میرے اتنے احسانات کے باوجود لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا، اس لیے مائدہ کا اترنا بھی ایک احسان تھا۔ دوسرے حضرات کہہ سکتے ہیں کہ مائدہ نہ اتار کر انھیں امتحان سے بچا لینا بھی ایک احسان ہی تھا۔ بہرحال قرآن مجید کے الفاظ دونوں صورتوں کا احتمال رکھتے ہیں اور اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”شاید عیسیٰ ؑ کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت میں مال کی آسودگی ہمیشہ رہی اور جو کوئی ان میں نا شکری کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پائے۔“ مگر رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد عیسیٰ ؑ کا امتی وہی ہے جو اسلام قبول کرلے، دوسرے لوگوں کا اپنے آپ کو مسیح ؑ کا امتی کہلانا سینہ زوری ہے، کیونکہ عیسیٰ ؑ نے واضح طور پر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ اب تمام دنیا رسول اللہ ﷺ ہی کی امت ہے، خواہ وہ امت اجابت ہو یا امت دعوت۔ رہا دنیا کا مال تو وہ کبھی کسی کے پاس زیادہ ہوتا ہے، کبھی کسی کے پاس، اس کا ایمان و کفر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ) [ بنی إسرائیل : 20 ] ”ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے۔“ اور فرمایا : (ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ) [ آل عمران : 140 ] ”اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔“
Top