Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 19
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ١٘ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ کھول کر بیان کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے عَلٰي : پر (بعد) فَتْرَةٍ : سلسلہ ٹوٹ جانا مِّنَ : سے (کے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اَنْ : کہ کہیں تَقُوْلُوْا : تم کہو مَا جَآءَنَا : ہمارے پاس نہیں آیا مِنْ : کوئی بَشِيْرٍ : خوشخبری دینے والا وَّلَا : اور نہ نَذِيْرٍ : ڈرانے والا فَقَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگئے بَشِيْرٌ : خوشخبری سنانے والے وَّنَذِيْرٌ : اور ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوشخبری دینے والا آیا اور نہ ڈرانے والا، تو یقینا تمہارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آچکا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا۔۔ : یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہوچکا تھا، عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں ابن مریم ؑ کا تمام لوگوں سے زیادہ حق دار یا تمام لوگوں سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔“ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : (واذکر فی الکتاب مریم) : 3442 ] بقول سلمان فارسی ؓ ان کی بعثت پر بھی 600 سال گزر چکے تھے۔ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب اسلام سلمان الانصاری : 3948 ] اور کوئی نبی نہیں آیا تھا، پھر آخری نبی رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا، سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم کو رسول کی صحبت میسر ہوئی، غنیمت جانو اور اللہ قادر ہے، اگر تم قبول نہ کرو گے تو اور خلق کھڑی کر دے گا تم سے بہتر، جیسے موسیٰ ؑ کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو محروم کردیا، اوروں کے ہاتھ سے ملک شام فتح کروا دیا۔ (موضح) فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۭ: اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے، یعنی عرصۂ دراز سے کسی اولو العزم پیغمبر کے نہ آنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام میں تغیر و تبدل اور تحریف ہوچکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز نہ تھا تو آپ ﷺ نے ملت ابراہیم کو تغیر و تبدل اور تحریف سے پاک کر کے لوگوں کو حق سے روشناس کرایا تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے اور عذر کی گنجائش نہ رہے۔ (قرطبی)
Top