Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 5
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ١۪ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ١٘ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ١٘ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠   ۧ
اَلْيَوْمَ : آج اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَ : اور طَعَامُ : کھانا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حِلٌّ : حلال لَّكُمْ : تمہارے لیے وَطَعَامُكُمْ : اور تمہارا کھانا حِلٌّ : حلال لَّهُمْ : ان کے لیے وَالْمُحْصَنٰتُ : اور پاکدامن عورتیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتیں وَالْمُحْصَنٰتُ : اور پاکدامن مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے اِذَآ : جب اٰتَيْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں دے دو اُجُوْرَهُنَّ : ان کے مہر مُحْصِنِيْنَ : قید میں لانے کو غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ : نہ کہ مستی نکالنے کو وَلَا مُتَّخِذِيْٓ : اور نہ بنانے کو اَخْدَانٍ : چھپی آشنائی وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ : منکر ہو بِالْاِيْمَانِ : ایمان سے فَقَدْ حَبِطَ : تو ضائع ہوا عَمَلُهٗ : اس کا عمل وَهُوَ : اور وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو ، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقینا اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہے۔
وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ ۠۔۔ : اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کا طعام، جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے، مسلمانوں کے لیے حلال ہے، بشرطیکہ انھوں نے غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا ہو اور واقعی ذبح کیا ہو۔ کسی چھری یا مشین سے سر کاٹ کر الگ کردینا یا سخت گرم پانی میں جانور کو ڈال کر یا بجلی کے کرنٹ سے مار دینا ذبح نہیں، کیونکہ ان طریقوں سے جسم سے بہتا ہوا خون (دم مسفوح) پوری طرح باہر نہیں نکلتا جو حرام ہے، اس لیے ایسے جانور کا گوشت کھانا درست نہیں۔ اگر صحیح ذبح کیا ہو تو پھر ٹھیک ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے سے متعلق حدیث ہے کہ خیبر کی فتح کے بعد نبی کریم ﷺ کو (ایک یہودی عورت کی طرف سے) بکری کے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر ملا ہوا تھا اور آپ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ [ بخاری، المغازی، باب الشاۃ التی سمت للنبی ﷺ بخیبر : 4249 ] اسی طرح بعض صحابہ نے بھی وہ چربی کھائی جو خیبر میں یہودیوں سے حاصل ہوئی تھی۔ [ مسلم، الجہاد، باب جواز الأکل من طعام الغنیمۃ۔۔ : 1772 ] مگر جو چیزیں ہماری شریعت میں حرام ہیں، جیسے مردار، خون، خنزیر کا گوشت وغیرہ، یہ چیزیں ان کے دسترخوان پر کھانا بھی حرام ہے، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی جائز نہیں، نہ ان کے ایسے برتن استعمال کرنا جائز ہے، ہاں اگر اور برتن نہ ملیں اور مجبوری ہو تو انھیں خوب دھو کر اور صاف کر کے استعمال کرسکتے ہیں۔ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ۔۔ : یعنی ان سے نکاح کرنا درست ہے، چاہے وہ اپنے دین پر قائم رہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ آزاد منش اور آوارہ قسم کی، جو انسان کے ایمان کو بھی تباہ کر ڈالیں۔ جمہور کے نزدیک یہاں ”َالْمُحْصَنٰتُ“ کے یہی معنی مراد ہیں، تاکہ کفر اور زنا کی دو آفات ان میں جمع نہ ہوں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (221)۔ وَمَنْ يَّكْفُرْ بالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ۔۔ : اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح صرف جائز ہے، مستحسن اور مستحب نہیں، یعنی کوئی باعث ثواب اور اچھی چیز نہیں اور جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے اسے اپنے ایمان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی سے متاثر ہو کر اپنے ایمان و اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
Top