Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 70
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًا١ؕ كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْ١ۙ فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَۗ
لَقَدْ : بیشک اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَ : پختہ عہد بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَاَرْسَلْنَآ : اور ہم نے بھیجے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رُسُلًا : رسول (جمع) كُلَّمَا : جب بھی جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا تَهْوٰٓى : نہ چاہتے تھے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل فَرِيْقًا : ایک فریق كَذَّبُوْا : جھٹلایا وَفَرِيْقًا : اور ایک فریق يَّقْتُلُوْنَ : قتل کر ڈالتے
بلاشبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے، جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے ان کے دل نہیں چاہتے تھے تو انھوں نے ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۔۔ : اس سے مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وعدہ پورا نہ کرنے کا بیان ہے، گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت ”اَوفُو بالعُقُودِ“ سے ہے، یعنی ہم نے ان سے عہد لیا کہ توحید و شریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔ اس میثاق کا ذکر اس سورت کی آیت (12) اور سورة بقرہ کی آیت (83 تا 85) میں ہے۔
Top