Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب وہ سنتے ہیں جو رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے تو تو دیکھتا ہے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ رہی ہوتی ہیں، اس وجہ سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، سو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔
وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ۔۔ : مفسرین کے بیان کے مطابق ان سے مراد نصاریٰ کے وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، سلمان ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو میں نے کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ”سلمان ! یہ کیا ہے ؟“ میں نے کہا : ”صدقہ ہے۔“ تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کھاؤ اور خود نہیں کھایا۔ چناچہ میں واپس آگیا، پھر کچھ کھانا اکٹھا کیا اور اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : ”سلمان ! یہ کیا ہے ؟“ میں نے کہا : ”ہدیہ ہے۔“ تو آپ ﷺ نے ہاتھ بڑھایا اور کھایا اور (ساتھ ہی) اپنے ساتھیوں سے بھی فرمایا کہ کھاؤ۔ میں نے کہا : ”آپ مجھے نصاریٰ کے متعلق بتائیں ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ان میں کوئی خیر نہیں ہے۔“ میں بوجھل دل کے ساتھ اٹھ آیا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل کیں : (لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ۔۔ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ) تو رسول اللہ ﷺ نے میری طرف پیغام بھیجا اور مجھے فرمایا : ”سلمان ! یہ (آنسوؤں والے) تیرے وہ ساتھی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔“ [ المعجم الکبیر : 6؍49، ح : 6121 ] سلیم الہلالی اور ان کے ساتھی نے اس حدیث کو ”کتاب الاستیعاب فی بیان الاسباب“ میں صحیح کہا ہے۔ ان لوگوں میں نجاشی ؓ اور ان کے ساتھی بھی شامل ہیں کہ جب مکہ میں مسلمان ہونے والے صحابہ ہجرت کر کے نجاشی کے ملک حبشہ میں گئے اور انھیں کفار مکہ کے سفیروں کی شکایت پر بادشاہ کے دربار میں بلایا گیا تو جعفر ؓ نے اس کے سامنے تقریر کی اور اس میں سورة مریم کی تلاوت کی، جس میں مسیح ؑ اور ان کی والدہ کا ذکر ہے، تو نجاشی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور نجاشی ؓ مسلمان ہوگئے، اگرچہ وہ مدینہ نہیں جاسکے مگر ان کی وفات پر رسول اللہ ﷺ نے ان کا غائبانہ جنازہ پڑھایا۔ اس کے علاوہ ایسے مسلمان ہونے والے نصاریٰ کا ذکر دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (199) اور سورة قصص (52 تا 55) اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والوں کو رسول اللہ ﷺ نے دوہرے اجر کی بشارت دی۔ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ : 97 ] فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ : یعنی ہمیں آپ ﷺ کی امت میں داخل فرما کر ان کی طرح شہادت دینے والوں میں شامل فرما۔ امت محمد ﷺ کی شہادت سے متعلق دیکھیں سورة بقرہ (143) یا یہ کہ انبیاء اور مومنین جو توحید کی گواہی دیتے ہیں، ان کی جماعت میں شامل فرما۔
Top