Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
کہا تو اے بھیجے ہوئے (قاصدو !) تمہارا معاملہ کیا ہے ؟
(1) قال فما خطبکم ایھا المرسلون : جب ابراہیم ؑ مہمانوں کے کھانا نہ کھانے پر خوف زدہ ہوئے اور صاف اظہار بھی کردیا :(انا منکم وجلون) (الحجر : 52)”ہم تو تم سے ڈرنے والے ہیں۔“ کیونکہ انہیں ان کے فرشتہ ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے ہ فرشتوں کا اس طرح آنا معمولی بات نہیں ہوتی، جیسا کہ فرمایا :(ما نزل المئکۃ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین) (الحجر : 8)”ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق (عذاب) کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے۔“ اس لئے وہ شدید ڈر گئے، تو فرشتوں نے ان کا خوف دور کرنے کے لئے ان سے دو باتیں کہیں، ایک یہ :(لاتخف انا ارسلنا الی قوم لوط) ھود : 80) ”ڈرو نہیں، کیونکہ ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ یعنی آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہماری منزل مقصود دوسری ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ ہم آپ کو بیٹے اور پوتے اسحاق و یعقوب کی بشارت دینے آئے ہیں۔ (دیکھیے ہود : 71) جب ابراہیم ؑ کو اطمینان ہوگیا تو انہوں نے پوچھا، تو اے بھیجے جانے والے فرشتو ! (قوم لوط کے ساتھ) تمہارا معاملہ کیا ہے اور تم ان کے متعلق کیا کرنا چاہتے ہو ؟ یاد رہے ! ”خطب“ کا لفظ عموماً کسی اہم یا سخت معاملے کے متعلق ہی اسعتمال کیا جاتا ہے۔ (2) اس سارے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہا نبی اء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة حجر (62) کی تفسیر۔
Top