Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 48
وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ
وَالْاَرْضَ : اور زمین کو فَرَشْنٰهَا : بچھایا ہم نے اس کو فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ : تو کتنے اچھے بچھانے والے ہیں۔ ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین، ہم نے اسے بچھا دیا، سو (ہم) اچھے بچھا نے والے ہیں۔
(1) والارض فرش تھا : آسمان بنانے کی طرح زمین بچھانے کو بھی دوبارہ زنادہ کرنے پر قادر ہوکنے کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور ”وفرشنا الارض“ کے بجائے ”والارض فرنھا“ میں بھی وہی بات محلوظ ہے جو ”والسمآء بینھا“ میں ملحوظ ہے۔ زمین کی پیدائش میں اس کے گول ہونے کے ذکر کے بجائے، جو ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی، اس بات کا ذکر فرمایا جو ہر شخص کے مشاہدے اور استعمال میں ہے اور جس سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ اگر وہ ناہموار اور اونچی نیچی ہوتی تو اس پر ان کا اور ان کے جانوروں کا رہنا ہی ممکن نہ ہوتا، نہ وہ اس پر بیٹھ سکتے، نہ لیٹ سکتے اور نہ چل پھر سکتے اور اس خوشگوار زندگی اور آسئاش کا تصور تک نہ ہوتا جو زمین کو بچھا کر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو عطا فرما رکھی ہے۔ (2) فنعم المھدون :”ای نحن“ یعنی ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔ ان آیات میں جمع متکلم (ہم) کا صیغہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
Top