Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔
(1) وما خلقت الجن و الانس الالیعبدون : اس آیت میں بتایا کہ نصیحت کیا کرنی ہے اور کون سی بات یاد دلانی ہے۔ فرمایا انہیں یاد دلاؤ کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (2) عبادت کا معنی بندگی ہے۔ غلام کو عربی میں عبد اور فاسری میں بندہ کہتے ہیں۔ عبادت وہ تعلق ہے جو غلام کا اپنے مالک یا عبد کا اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے۔ (3) کائنات کی ہر چیز رب تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے، سکیک ی مجال نہیں کہ ذرہ برابر سرتابیک ر سکے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ”کن“ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس ارادے کو ارادہ کونیہ اور اس حکم کو تکوینی حکم کہتے ہیں، فرمایا :(انما امرہ اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون) (یٰسین : 82)”اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ”ہوجا“ تو وہ ہوجاتی ہے۔“ (4) اکثر معاملات میں انسان اور جن بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ کونیہ اور تکوینی کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح دوسری تمام چیزیں، ان کی پیدائش، عمر، رزق، صحت، مرض اور ان کے اعضا کے افعال اور صلاحیتوں میں ان کی مرضی کا کچھ دخل نہیں۔ البتہ دونوں کو امتحان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک اختیار عطا فرمایا ہے اور زندگی گزارنے کے لئے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کچھ احکام دیئے ہیں کہ میں تمہارا رب ہوں اور تم میرے بندے ہو، میں تمہارا مالک ہوں اور تم میرے غلام ہو، لہٰذا تم نے میری غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حکم شرعی اور اس ارادے کو ارادہ شرعیہ کہتے ہیں۔ انسان اس حکم کی تعمیل اور اس ارادے کو پورا بھی کرسکتا ہے اور اسے اس حکم کی نافرمانیا ور اس رادے کو پورا نہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اسی اختیار پر اس سے باز پرس ہوگی اور وہ ثواب یا عذاب کا مستحق بنے گا، فرمایا :(الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً) (الملک : 2)”وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد دہانی کے لئے پیغمبر بھیجے اور فرمایا :(وما خلقت الجن والانس الالیعبدون)”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کا یم گر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔ (5) بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر بازار اور عدلات میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عہد۔ ہاں، اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھاناپ ینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کئے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔ (6) رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سیپ ہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لئے عبداللہ بن عباس ؓ نے سورة بقرہ کی آیت (21) :(یایھا الناس اعبدوا ربکم) کی تفسیر فرمائی :”ای و خدوا ربکم“ ”یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔“ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : 25)”اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔“
Top