Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 59
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ : تو بیشک ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا ذَنُوْبًا مِّثْلَ : حصہ ہے، مانند ذَنُوْبِ : حصے کے اَصْحٰبِهِمْ : ان کے ساتھیوں کے فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ : پس نہ وہ جلدی کریں مجھ سے
پس یقینا ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا، ان کے ساتھیوں کی باری کی طرح (عذاب کی) ایک باری ہے، سو وہ مجھ سے جلدی (عذاب) نہ مانگیں۔
(1) فان للذین ظلموا ذنوباً …:”ذنوباً“ (ڈال کر فتحہ کے ساتھ) اصل میں بڑے ڈول کو کہتے ہیں اور ”ذنوب“ (ڈال کے ضمہ کے ساتھ)”ذنب“ کی جمع ہے، گناہ پہلے لوگ ایک ہی کنوئیں سے پانی لینے کے لئے آتے تو ہر ایک اپنا ڈول ساتھ لاتا تھا، پھر باری باری اپنا ڈول ڈلاتے اور پانی بھر کرلے جاتے، اس لئے ”ذنوب“ (ڈول) کا لفظ باری کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ سورت کے آخر میں کفار قریش کے متعلق فرمایا ہ جس طرح ان سے پہلے ان کے ساتھیوں پر عذاب باری باری آیا اسی طرح ان مشرکین پر عذاب کی نوبت (باری) بھی آرہی ہے جنہوں نے ظلم کیا۔ ظلم سے مراد اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ باری آنے میں کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ (2) فلا یستجلون : یہ اصل میں ”فلا یستعجلونی“ تھا،”یائ“ حذف ہوگئی، نون وقایہ پر کسرہ یہ بتانے کے لئے باقی رہا کہ یہاں سے ”یائ“ حذف ہوئی ہے۔ سو وہ مجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ نہ کریں، باری آنے پر ان کا یہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔
Top