Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 5
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌۙ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں تُوْعَدُوْنَ : تمہیں وعدہ دیاجاتا ہے لَصَادِقٌ : البتہ سچ ہے
کہ بلاشبہ جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقینا سچا ہے۔
(1) انما توعدون لصادق …: یہاں ”انما“ اکٹھا لفظ نہیں جو کلمہ حصر ہے اور جس کا معنی ہے ”اس کے سوا نہیں“ بلکہ اس میں ”ان ‘ حرف تاکید الگ ہے اور ”ما الگ ہے جو اسم موصول ہے اور اس کا معنی ہے ”وہ جو۔ ذ صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں رسم الحظ پوری طرح ضبط نہیں ہوا تھا، انہوں نے ان دونوں کو اکٹھا لکھ دیا، تو بعد میں امت نے قرآن مجید کی حفاظت کا اتنا زبردست اہتمام کیا کہ صحابہ نے جو لفظ جس طرح لکھا تھا قرآن مجید کے رسم الخط میں اسے اسی طرح باقی رکھا گیا۔ (2) یعنی انچ اورں صفات کی حامل ہوائیں شاہد ہیں کہ تم سے دوبارہ زندہ کئے جانے اورق بروں سے نکل کر اللہ کے سامنے پیش ہونے کا جو وعدہ کیا ج اتا ہے وہ یقیناً سچا ہے اور ہر عمل کی جزا بلاشبہ یقینا واقع ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہواؤں کی مردوں کے زندہ کرنے پر دلالت کو ایک اور آیت میں خوب واضح فرمایا :(وھو الذی یرسل الریح بشراً بین یدی رحمتہ ، حتی اذا اقلت سحاباً ثقالاً سقنہ لبلد میت فانزلنا بہ المآء فاخرجنا بہ من کل الثمرت ، کذک نحرج الموتی لعلکم تذکرون) (الاعراف : 58) ”اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے، اس حال میں کہ خوش خبری دینے والی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادل اٹھاتیہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے کئی پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ قرآن مجید نے بارش کے ساتھ مردہ زمین کے زندہ کرنے کو قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر بار بار بیان فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورة فاطر (9) اور سورة روم (48 تا 50)۔
Top