Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
پس نصیحت کر، کیوں کہ تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔
(1) فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون :”کاہن“ وہ شخص جو شیاطین سے تعلق رکھتا ہے اور ان سے سن کر غیب کی خبریں یدتا ہے، جن میں ایک آدھ وہ سچی خبر بھی ہوتی ہے جو انہوں نے آسمان کے نیچے فرشتوں کی باہمی گفتگو سے چرائی ہوتی ہے، پھر اس کے ساتھ سو باتیں جھوٹی ملا کر اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔ (2) سورت کے شروع سے قیامت، جزا و سزا اور جنت و جہنم کی تفصیل اور دلائل ذکر کرنے کے بعد فرمایا :”فذکر“ (پس نصیحت کر) یعنی جب ہم نے یہ سب کچھ آپ کو وحی کے ذریعے سے بتادیا تو اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ تمام لوگوں کو صنیحت کریں اور کفار و مشرکین کی بےہودہ باتوں اور تہمتوں کی پروا نہ کریں۔ وہ آپ کو کاہن کہیں یا مجنون، آپ اللہ کے فضل سے کسی طرح بھی نہ کاہن ہیں نہ مجنون۔ کہانت یا دیوانگی کی کوئی بھی بات آپ میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔ ”فما انت بنعمت ربک بکاھن“ میں ”ما“ نافیہ کے بعد ”بائ“ نفی کی تاکید کے لئے ہے اور ”بکاھن“ پر تنوین تنکیر کے لئے ہے ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ”تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔“ (2) اللہ تعالیٰ نے اور مقامات پر بھی رسول اللہ ﷺ سے کہانت اور جنون کی نفی فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة حاقہ (41، 42) ، قلم (2) اور سورة تکویر (22)۔ سورة شعراء میں یہ بات کہ آپ ﷺ کاہن نہیں اور یہ کہ کاہن کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ تفصیل سے گزر چکی ہے، دیکھیے سورة شعراء کی آیات (210 تا 223) اور ان کی تفسیر۔
Top