Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 40
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا : یا تم مانگتے ہو ان سے کوئی اجر فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تو وہ تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : بوجھل ہورہے ہیں
یا تو ان سے کوئی اجرت مانگتا ہے ؟ پس وہ تاوان سے بوجھل کیے جانے والے ہیں۔
(ام تسلھم اجراً …:”الغرم و الغرامۃ و المغرم“ تاوان، چٹی، جو مال آدمی کو نہ چاہیے کے باوجود دینا پڑجائے۔ ”اجراً“ پر تنوین تنکیر کیلئے ہے، کسی بھی طرح کی اجرت۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے کسی طرح کی اجرت کا مطالبہ کرتے ہوں اور وہ تاوان سمجھ کر بوجھ بردشات کرنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ جب آپ ان سے کسی طرح کی اجرت یا معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اپنی مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے سمجھتے ہیں اور اپنی کمائی یا ک اور بار یک بھی پروانہ کرتے ہوئے ہر وقت ان کی خیر خواہی کے لئے ان کے پیچھے پھرتے ہیں تو پھر وہ آپ سے دور کیوں بھاگتے ہیں ؟ مزید دیکھیے سورة مومنون (72)۔
Top