Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، پس بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کر جب تو کھڑا ہو۔
(1) واصبر لحکم ربک : یہاں ”لام“ ”علی“ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم پر عمل کرنے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور دعوت کا کام جاری رکھو، جیسے فرمایا :(واصبر علی مایقولون) المزمل : 10) ”اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں۔“ اور اگر ”الی“ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر کرو، جیسا کہ فرمایا :(واصبر حتی یحکم اللہ) (یونس : 109)”اور صبر کر یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے۔“ اس مقام پر حرف ”لام“ لانے سے ایسا جامع مفہوم پیدا ہو رہا ہے جو کوئی اور حرف لانے سے پیدا نہیں ہوتا۔”واصبر لحکمنا“ (اور ہمارے حکم پر صبر کر) کے بجائے فرمایا :(واصبر لحکم ربک) (اور اپنے رب کے حکم پر صبر کر) مطل یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ تیری نگہداشت اور حفاظت کرے۔ (2) فانک باعینا : کیونکہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہم ہر وقت تھے دیھک رہے ہیں اور تیری نگراین اور حفاظت کر رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ تجھے نقصان پہنچا سکے۔ مزید دیکھیے سورة ہود (37)۔ (2) وسبح بحمد ربک : صبر کے ساتھ تسبیح و تحمید یعنی نماز کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(واستعینوا بالصبر وا لصلوۃ) (البقرہ : 35)”اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔“ (4) ”سبح بحمد ربک“ کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ ”اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر“ مگر اس سے مراد نماز ہے۔ دلیل اور تفصیل کے لئے دیکھیے سورة طہ (130) کی تفسیر۔ (5) حین تقوم : اکثر مفسرین نے ”سبح بحمد ربک“ سے ”سبحان اللہ“ اور ”الحمد للہ“ کہنا مراد لیا ہے اور ”حین تقوم“ سے مراد بعض نے یہ لیا ہے کہ نیند کے بعد بستر سے اٹھتے وقت ”سبحان اللہ ، الحمد للہ“ کہو۔ بعض نے اس سے مجلس سے اٹھتے وقت کفارہ مجلس کی دعا ”سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت استغفرک و اثوب الیک مراد لی ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت ”سبحانک اللھم وبحمدک“ (دعائے استفاح) ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر خطاب کے لئے کھڑے ہوتے وقت تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے۔ مگر انھی مفسرین نے اگلی آیت ”ومن الیل فسبحہ“ میں تسبیح سے مراد نماز تہجد اور ”ادبار النجوم“ سے مراد نماز فجر لی ہے۔ حق یہ ہے کہ ”سبح“ کا جو معنی ”من الیل“ اور ”ادبار النجوم“ کے ساتھ کیا گیا ہے وہی معنی ”حین تقوم“ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ طبری نے یہاں پہلے دو قول ذکر فرمائے ہیں، ایک یہ کہ نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید کرے، دوسرا یہ کہ جب فرض نماز کے لئے کھڑا ہو تو ”سبحانک اللھم و بحمدک…“ دعا پڑھے۔ پھر فرمایا :”صواب کے سب سے زیادہ قریب ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ”سبح بحمد ربک کا معنی ہے ”صل بحمد ربک حین تقوم من منامک و ذلک نوم القائلۃ وانما عنی صلاۃ الظھر“ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ نماز پڑھ جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ نیند سے مراد دوپہر کی نیند ہے اور نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔“ فرماتے ہیں :”ہم نے اس قول کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ”سبحانک اللھم“ پڑھنا کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں اور ہم نے دوپہر کی نیند سے اٹھنا اسلئے مراد لیا ہے کہ لوگوں کا معروف نیند سے اٹھنا یا تورات کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز فجر کا وقت ہے یا دوپہر کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز ظہر کا وقت ہے۔ تو جب ”سبح بحمد ربک حین تقوم“ کے بعد ”ادبار النجوم“ کے وقت تسبیح کا حکم دیا جو رتا کی نیند سے اٹھ کر نماز فجر کی دو رکعتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ ”حین تقوم“ سے مراد وہ نماز ہے جو رات کی نیند سے اٹھنے کے علاوہ ہے او وہ نماز ظہر ہے۔“ (طبری) بعض حضرت ا نے لکھا ہے کہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ’ حین تقوم“ سے مراد نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید ہے، لیکن اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ طبری کی ترجیح یہ نہیں ہے۔
Top