Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 6
وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِۙ
وَالْبَحْرِ : اور سمندر کی الْمَسْجُوْرِ : جو موجزن ہے
اور لباب بھرے ہوئے سمندر کی !
(والبحر المسجور :”سجر یسجر“ (ن) کئی معنوں میں آتا ہے۔”بحر التنور“ ”اس نے تنور ایندھن سے بھر کر بھڑکا دیا۔“”سجر الماء النھر ‘ ”پانی نے نہر کو بھر دیا۔“”سجر الکلب (شدہ بالساجور)“”اس نے کتے کو پٹے کے ساتھ باندھ دیا۔“ اس آیت میں زمین کی سطح پر پائی جانے والی سب سے عظیم مخلوق سمندر کی قسم کھا کر اسے قیامت کے دن عذاب دینے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ لفظ ”المسجور“ لغت کے لحاظ سے جن کیفیتوں کا اظہار کرتا ہے وہ تینوں یہاں مراد لی جاسکتی ہییں۔ ایک یہ کہ وہ لبالب بھرا ہوا ہے، مدتیں گزرنے کے باوجود اس کی لبریزی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قتادہ نے فرمایا :”الممتلی“ (طبری : 32593، بسند صحیح)”بھرا ہوا۔“ پھر وہ ساکن نہیں بلکہ اس میں ہر وقت ابلنے اور جوش مارنے کی سی کیفیت جاری رہتی ہے۔ مجاہد نے فرمایا :”الموقد“ (طبری : 32592، بسند حسن)”بھڑکایا ہوا۔“ مزید دیکھیے سورة تکویر کی آیت (6) :(واذا البحار سجرت) کی تفسیر۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے خشکی پر چڑھ دوڑنے سے باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ اگر کبھی اسے طوفان کی صورت کی صورت میں نکلنے کی تھوڑی سی اجازت ملتی ہے تو شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے نپاید ہوجاتے ہیں۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے :(البحر المسجور“ المحبوس) (طبری : 32596)
Top