Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 14
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى
عِنْدَ : پاس سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى : سدرۃ المنتہی کے
آخری حد کی بیری کے پاس۔
(عند سدرۃ الم تھی :”سدرۃ“ بیری کا درخت۔”المنتھی“”انتھی ینتھی ان تھا“ (افتعال) سے ظرف مکان ہے، انتہا کی جگہ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس نام کی وجہ بیان فرمائی ہے، انہوں نے فرمایا :(لما اسری برسول اللہ ﷺ انتھی بہ الی سدرۃ المنتھی وھی فی السماء السادسۃ : الیھا ینتھی ما یعرج بہ من الارض فیقص منھا والیھا ینتھی ما یھبط بہ من فوقھا فیقبض منھا) (مسلم، الایان، باب فی ذکر سدرۃ المنتھی : 183)”جب رسول اللہ ﷺ کو رات (معراج کے لئے) لے جایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتی تک پہنچایا گیا اور وہ چھٹی آسمان میں ہے۔ زمین سے اوپر جو کچھ چڑھتا ہے اس کی انتہا وہاں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سے جو کچھ اترتا ہے اس کی انتہا بھی وہیں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے۔“ مسلم کی شرح میں نووی ؒ نے فرمایا کہ صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں اسی طرح چھٹے آسمان ہی کا ذکر ہے، جب کہ انس ؓ سے مروی دوسری روایات میں گزر چکا ہے کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ قاضی ٍ (عیاض) نے فرمایا، اس کا ساتویں آسمان پر ہونا ہی زیادہ صحیح اور اکثر کا قول ہے۔ یہی سدرۃ المنتہی کے معنی اور نام کا تقاضا ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر ہو۔ نوو فرماتے ہیں کہ دونوں اقوال کو جمع کرنا ممکن ہے کہ اس کی جڑ چھٹی آسمان میں ہے اور زیادہ تر حصہ ساتویں آسمان میں ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑی ہے۔ اس آیت سے جبریل ؑ کو دیکھنے کا وقت اور مقام بھی معلوم ہوگیا ، کیونکہ سدرۃ المنتہی آپ ﷺ نے معراج کی رات دیجھی ہے جب آپ ﷺ کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :(ثم رفعت الی سدرۃ المنتھی فاذا نبفھا مثل قلال ھجر، واذا ورقھا مثل اذان القیلۃ قال ھذہ سدرۃ المنتھی) (بخاری المناقب، باب المعراج، 3888، عن مالک بن صعصعۃ ؓ)”پھر سدرۃ المنتہی میرے سامنے ظاہر ہوئی، دیکھا تو اس کے بیر (پھل) ہجر شہر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے۔“
Top