Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 16
اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ : جب چھا رہا تھا سدرہ پر مَا يَغْشٰى : جو کچھ چھا رہا تھا
جب اس بیری کو ڈھانپ رہا تھا جو ڈھانپ رہا تھا۔
(اذ یغشی السدرۃ مایغشی : سدرۃ المنتہی کے مشاہدے کے وقت اس پر انوار کی بارش، فرشوتں کے ہجوم اور سا کے جلال و جمال کے منظر کی نقشہ کشی کے لئے انسان کے اسعتمال میں آنے والی زبانوں کی تنگ ودامنی کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھیے طہ : 78) حدیث میں اس کے متعلق چند اشارے آئے ہیں، ان میں سے ایک کا ذکر پچھلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ (وعشیھا الو ان لا ادری ماھی) (دیکھیے بخاری :339)”اور اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔“ انس ؓ نے حدیث معراج میں سدرۃ المنتہی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے یہ الفاظ بیان فرماتے : (فلما غشیھا من امر اللہ ما غشی تغیرت فما احد من خلق اللہ یستطیع ان ینع تھا من حسنھا فا وحی اللہ الی ماوخی) (مسلم، الایمان، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ …162)”پھر جب اس کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا جس چیز نے ڈھانکا تو اس کی حلات بدل گئی، پھر اس کا یہ حال تھا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کی خوب صورتی بیان نہیں کرسکتا ، اس وقت اس نے میری طرف وحی کی جو وحی کی۔“ اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا :(اذ یغشی السدرۃ ما یشغی) قال فراش من ذھب) (مسلم ، الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتھی :183)”سدرۃ المنتہی کو ڈھانک رہا تھا جو ڈھانک رہا تھا“ سے مراد سونے کے پروانے ہیں۔“ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو، جو آپ ﷺ کو ساتھ لے کر گئے تھے، ان کی اصل صورت میں ایک بار پھر دیکھا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے آیت (ولقد راہ نزلۃ اخری ، عند سدرۃ المنتھی) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(رایت جبریل ﷺ ولہ ست مائۃ جناح ینتشر مین ریشہ التھاویل الدروالیاقوت) (مسند احمد، 1/360، ح : 3385)”میں نے جبریل ﷺ کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یا قوت جھڑ رہے تھے۔“ مسند کے محقق نے فرمایا ””اسنادہ حسن“ کہ اس کی سند حسن ہے، اور ابن کثیر ؒ نے فرمایا :”ھذا اسناد جید قوی“ کہ اس کی سند جید قوی ہے۔
Top