Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
بلاشبہ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔
(1) لقد رای من ایت ربہ الکبری :”من“ تبعیض کے لئے ہے، یعنی قسم ہے کہ آپ ﷺ نے اس موقع پر اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ان بہت بڑی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی تو جبریل ؑ ہیں، جنہیں دو دفعہ دیکھنے کے ذکر کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ احادیث معراج میں اور بہت سی نشانیوں کا ذکر ہے جنہیں آپ ﷺ نے اس موقع پر دیکھا۔ ان میں براق، ساتوں آسمانوں کے عجائبات اور ان پر انبیائے کرام کی ملاقات، دجال، سدرۃ المنتہی، جنت و جہنم، جہنم کا خازن مالک، نہر کوثر، بیت المور ، چار دریا، وہ (مستوی) بلند ہموار جگہ جس پر چڑھے تو قلموں کے چلنے کی آواز سنیں اور دوسری نشانیاں شامل ہیں، اختصار کے پیش نظر ان کی تفصیل ترک کی جاتی ہے۔ (2) یہ آیت واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے عمراج کی رات اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ”لقد“ کے تاکیدی الفاظ کے ساتھ یہ نہ فرماتے کہ ”بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں“ بلکہ یہ فرماتے کہ ”بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب اعلیٰ کو دیکھا۔“ (3) جیسا کہ پیچھے گزرا ہے کہ ”شدید القوی“ اور ”ذومرۃ“ سے مراد جبریل ؑ ہیں اور ”’ نا فتدلی“ اور ”فکان قاب قوسین“ کی ضمیر غائب سے بھی وہی مراد ہیں اور ”ولقد راہ“ میں ضمیر ”ہ“ سے مراد بھی جبریل ؑ ہیں۔ قرآن مجید سے اس کی تائید اور صحیح روایات سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی تفسیر بھی گزر چکی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ اور عائشہ ؓ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے۔ (دیکھیے مسلم، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقد راہ نزلۃ اخری)…: 185، 188) مگر بعض مفسرین نے ان الفاظ اور ضمیروں کا مصداق اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا ہے اس کی تائید میں انہوں نے ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا ہے :(عن ابی العالیہ عن ابن عباس قال :(ماکذب الفواد ما ریا) (ولقد راہ نزلۃ اخری) (قال راہ بفوادہ مرتین) (مسلم، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقد راہ نزلۃ اخری)…186)”ابوالعالیہ نے ابن عباس ؓ سے ”ما کذب الفوائد ما رای“ اور ”ولقد راہ نزلہ اخری“ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ ﷺ نے اسے اپنے دل کے ساتھ دوبارہ دیکھا۔“ اس میں شک نہیں کہ آیات کے الفاظ میں ابن عباس ؓ والی تفسیر کی گنجائش موجود ہے، مگر صحیح مسلم میں عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد جبریل ؓ ہی۔ ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ کی صراحت کے بعد کسی اور تفسیر کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اب آپ حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں، مسروق کہتے ہیں کہ میں عائشہ ؓ کے ہاں ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے فرمایا :(یا ابا عائشۃ ! ثلاث من تکلم بواحدۃ منھن فقد اعظم علی اللہ الفریۃ ، قلت ماھن ؟ قالت من زعم ان محمداً ﷺ رای ربہ فقد اعظم علی اللہ الفریۃ ، قال وکنت متکفا فجلست فقلت با ام المومنین ! انظرینی ولا تعجلینی الم یفل اللہ عزوجل :(ولقد راہ بالافق المبین) (التکویر : 23) (ولقد راہ نزلہ اخری) (النجم : 13) فقالت انا اول ھذہ الامۃ سال عن ذلک رسول اللہ ﷺ فقال انما ھو جبریل لم ارہ علی صورتہ التی خلق علیھا غیر ماتین المرتبین رایتہ منھطا من السمآء سادا عظم خلقہ ما بین السماء الی الارض فقالت او لم تسمع ان اللہ یقول (لاتدر کہ الاصبار، وھو یدرک الابصار، وھو اللطیف الخیر) (الانعام : 103) او لم تسمع ان اللہ یقول (وما کان لبشر ان یکلمۃ اللہ الا وحیا اومن ورآی حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشآء انہ علی حکیم) (الشوری : 51) (مسلم ، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقدراہ نزلۃ اخری)…188) ”اے ابو عائشہ ! تین باتیں ایسی ہیں کہ جو ان میں سے ایک بات بھی کہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔“ میں نے کہا، ”وہ کیا ہیں ؟“ انہوں نے فرمایا :”جو شخص یہ گمان کر کے محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔“ مسروق کہتے ہیں، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے کہا :”ام المنین ! مجھے کچھ مہلت دیں جلدی نہ کریں، کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا :(ولقد راہ بالافق المبین) (التکویر : 23)”اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس کو (آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔“ تو انہوں نے فرمایا :”اس امت میں جس نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق سب سے پہلے پوچھا وہ میں ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا :”وہ تو جبریل ؑ ہیں، میں نے انہیں ان کی اس صورت میں ، جس میں انہیں پیدا کیا گیا ہے، ان دو مرتبہ کے سوا نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے عظیم وجود نے آسمان و زمین کے مابین کو پر کر رکھا تھا۔“ پھر ام المومنین ؓ نے فرمایا :”کیا تم نے نہیں سنا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(لاتدر کہ الابصار، وھویدرک الابصار، وھو اللطیف الخبیر) (الانعام : 103)”اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔“ اور کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الاوحیا اومن ورآی حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشآء انہ علی حکیم) (الشوری : 51)”اور کسیب شر کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بیشک وہ بےحد بلند، کمال حکمت والا ہے۔“ ابن کثیر ؒ نے فرمایا :”ابن عباس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کو لد سے دیکھنا مروی ہے، ایک روایت میں مطلق دیکھنے کا بھی ذکر ہے مگر اس سے مراد بھی دل سے دیکھنا ہی ہے اور جنہوں نے ان سے آنکھوں کے ساتھ دیکھنا روایت کیا ہے انہوں نے غریب بات کی ہے، کیونکہ اس (آنکھوں کے ساتھ دیکھنے) کے بارے میں صحابہ کرام ؓ سے کوئی چیز ثابت نہیں اور بغوی نے اپنی تفسیر میں جو فرمایا ہے کہ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں کے ساتھ دیکھا ہے اور یہ انس، حسن اور عکرمہ کا قول ہے، تو بغوی کی اس بات میں نظر ہے۔“ (ابن کثیر) المختصر رسول اللہ ﷺ کا اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھنا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ مروی نہیں۔ ابن عباس ؓ نے دل کے ساتھ دیکھنے کی جو بات کی ہے اگر ان آیات کے پیش نظر کی ہے تو درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی تصریح کے خلاف ہے۔ ہاں، نیند کی حالت میں آپ ﷺ کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صحیح سندوں کیساتھ ثابت ہے اور یہ دیکھنا دل ہی کے خلاف ہے۔ ہاں ، نیند حالت میں آپ ﷺ کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے اور یہ دیکھنا دل ہی کے ساتھ تھا، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا :(یاعائشۃ ! ان عینی تنامان ولا ینامق لبی) (بخاری، صلاۃ التراویح، باب فصل من قام رمضان : 2013)”اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دلن ہیں سوتا۔“ یہاں آپ ﷺ کا حالت نیند میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے متعلق ایک حدیث درج کی جاتی ہے معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں : ”ایک دن رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے لئے ہمارے پاس آنے سے رکے رہے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیا کو دیکھ لیں، تو آپ ﷺ جلدی ج کے ساتھ آئے ، نماز کی اقامت کہی گئی۔ آپ ﷺ نے نمازپ ڑھائی اور نماز میں اختصار فرمایا۔ ، جب سلام پھیرا تو ہمیں اونچی آواز کے ساتھ فرمایا :”اپنی اپنی صفوں میں بیٹھے رہو۔“ پھر فرمایا :(اما انی ساحد تکم ما حبسنی عنکم الغداۃ انی فمت من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلی فنعست فی صلاتی حتی استقک فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلی فنعست فی صلاتی حتی استقلت فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی احسن صورۃ فقال یا محمد ! قلت لبیک رب ! قال فیم یختصم الملا الاعلی ؟ قلت لا اذری رب ! قالھا ثلاثاً قال فرایتہ وضع کفہ بین کتفی قدو جدت برداناملہ بین ثدیی فتجلی لی کل شیء و عرفت) (ترمذی، التفسیر، سورة ص : 3235)”سنو ! میں تمہیں بتاؤں گا کہ آج صبح مجھے تمہارے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا۔ آج رات میں اٹا، وضو کی ا اور جتنی میری قسمت میں نماز تھی وہ نماز میں نے پیڑھی، پھر مجدھے نماز میں اونگھ آگئی یہاں تک کہ میں بھایر ہوگیا۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ میرا رب خوبصورت ترین شکلمیں میرے سامنے ہے، تو اس نے فرمایا : ”اے محمد !“ میں نے کہا :”میں حاضر ہوں اے میرے رب !“ فرمایا :”ملا العیٰ کس بات میں بحثک ر رہے ہیں ؟“ میں نے کہا، ”میں نہیں جانتا۔“ تین دفعہ فرمایا۔ (نبی ﷺ نے فرمایا) : ”تو میں نے اسے (اپنے رب کو) دیکھنا کہ اس نے اپنی کف میرے کندھوں کے درمیان رکھی، تو میں نیا س کے پوروں کی ٹھنڈک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، تو میرے لئے (ملا اعلی کی بحث کے متعلق) ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے اسے جان لیا۔“ آگے لمبی حدیث ہے، ترمذی نے فرمایا :”یہ حدیث حسن صحیح ہے اور میں نے محمد بن اسمعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا :”یہ حدیث حسن صحیح ہے۔“ امام ترمذی نے ابن عباس ؓ سے بھی نفاق فرق کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ابن کثیر ؒ نے فرمایا کہ مسند احمد (1/285) میں ابن عباس ؓ سے مروی حدیث ”رایت ربی بارک و تعالیٰ“ (میں نے اپنے رب عزو جل کو دیکھا) اسی سند والی حدیث کا اختصار ہے، کیونکہ امام احمد نے ابن عباس ؓ سے خواب میں دیکھنے کی مفصل حدیث بھی روایت کی ہے جو پیچھے ترمذی کے حوالیسے گزری ہے۔ صحیح بخاری میں انس ؓ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے :(ودنا الجبار رب العزۃ قتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی فاوحی اللہ فیما اوخی الیہ حمسین صلاۃ علی امتک قل یوم ولیلۃ) (بخاری، التوحید، باب ماجء فی قولہ عزوجل :(وکلم اللہ موسیٰ تکلیما): 8518)”اور جبار رب العزت قریب آیا پھر اتر آیا، یہاں تک کہ اس سے دو کمانوں کے فاصلے پر ہوگیا یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی طرف جو وحی فرمائی، اس میں آپ کی امت پر دن رات میں پچاس نمازوں کی وحی فرمائی۔“ یہ لمبی حدیث ہے، اس حدیث کے شروع اور آخر میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ معاملہ نیند کا تھا اور نیند میں آپ ﷺ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ کیا معراج متعدد بار ہوا ہے، تو اعہل علم نے فرمایا کہ بیداری کی حالت میں معراج ایک ہی دفعہ ہوا ہے، اس سے پہلے تمہید کے طور پر پہلے خواب میں آپ کو یہ سب کچھ دکھایا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے ابن کثیر میں تفسیر سورة بنی اسرائیل اور فتح الباری میں شرح حدیث مذکور۔ تفسیر ہذا میں سورة انعام کی آیت (103) کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
Top