Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 23
اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ
اِنْ هِىَ : نہیں وہ اِلَّآ اَسْمَآءٌ : مگر کچھ نام ہیں سَمَّيْتُمُوْهَآ : نام رکھے تم نے ان کے اَنْتُمْ : تم نے وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے آباؤ اجداد نے مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : نہیں نازل کی اللہ نے بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ : ساتھ اس کے کوئی دلیل اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ : مگر گمان کی وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ : اور جو خواہش کرتے ہیں نفس وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ تحقیق آئی ان کے پاس مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى : ان کے رب کی طرف سے ہدایت
یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، ان کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی۔
(1) انھی الا اسمآء سمیتموھآ انتم وابآئکم …: اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (71) اور سورة یوسف (40) کی تفسیر۔ (2) ان یتثبعون الا الظن : تفسری کیلئے دیکھیے سورة یونس (36، 66) کی تفسیر۔ (3) وما تھوی الانفس ولقد جآء ھم …: یعنی یہ لوگ ان کی پرستش صرف اپنے دلوں کی خواہشات کی پشیروی میں کر رہے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام بناتا رہے اور اگر آخرت آہی جائے تو وہاں بھی انہیں بخشوا دے، مگر ان پر حلال و حرام کی کوئی پابندی ہو نہ ان کی خواہشات پر کوئی قدغن ہو۔ اس لئے کبھی کسی کو اللہ کی اولاد بنا کر پوجنا شروع کر یدتے ہیں، جیسے کوئی مسیح یا عزیز ؑ کو اس کا بیٹا بنا کر پوجتا ہے، جیسے یہود و نصاریٰ اور کوئی فرشتوں کو بیٹیاں بنا کر ، جیسے مشرکین عرب اور کبھی کسی کو اس کا ایسا محبوب یا محبوبہ بنا کر پوجنے لگتے ہیں جس کی محبت کے ہاتھوں وہ مجبور ہے اور ان کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا، جیسا کہ عام بت پرست ہیں اور کئی جھوٹے مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے اور دل میں امید باندھ لیتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے یہ خیالی معبود قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا لیں گے، کیونکہ ان کا اس کے ساتھ نسب یا محبت کا رشتہ ہے جس سے مجبور ہو کر اسے ان کی شفاعت ماننا پڑے گی۔ جب کہ حقیقت میں یہ سب ان کی ناکام تمنائیں اور آرزوئیں ہیں، بات یہ ہے :(ولقد جآء ھم من ربھم الھدی)”اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایات آچکی۔“ اور اصل ہدایت اور سیدھی راہ وہی ہے جو ہمارے پیغمبر ﷺ لے کر ان کے پاس آئے ہیں۔
Top