Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
وان لیس للانسان الا ما سعی : یعنی جس طرح کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا جائے گا اسی طرح اسے اجر و ثواب بھی انہی اعمال کا ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن و حدی سے ثابت ہے کہ آدمی کو دوسروں کے نیک اعمال سے فائدہ پہنچتا ہے ، مثلاً گناہ گاروں کے لیے انبیاء ، فرشتوں اور صالحین کی شفاعت ، مردوں کے لیے زندوں کی دعا دیکھئے (مومن 8، حشر : 1) اور باپ کے عمل سے اولاد کے درجوں کا بلند ہونا تو قرآن سے ثابت ہے (دیکھئے طور : 21) اور میت کی طرف سے صدقہ ، صیام اور حج وغیرہ کا نافع ہونا حدیث سے ثابت ہے ، تو اس آیت کے ساتھ اس کی مطابقت کیسے ہوگی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی شخص کے لیے نافع ہوگا جو ایمان لے آیا ، کافر کو ان میں سے کوئی چیز نفع نہیں دے گی۔ ایمان کے بعد ان چیزوں کا نافع ہونا اس کی اپنی سعی یعنی ایمان ہی کی برکت اور اسی کا نتیجہ ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب سے کہا تھا :(ای علم ! قل لا الہ الا اللہ ، کلمۃ احاج لک بھا عند اللہ) (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قصۃ ابی طالب : 3884)”اے چچا ! تو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہہ لے ، میں اس کلمے کے ساتھ تیری خاطر اللہ تعالیٰ کے پاس جھگڑوں گا“۔ اور ابراہیم ؑ نے کہا تھا :(یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم) (الشعرائ : 88، 89) ”جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی و الا دل لے کر آیا“۔ کفر و شرک سے سلامت دلے والے کو وہاں اس کے بیٹے بھی کام آئیں گے جو اس کے بعد اعمال صالحہ کرتے رہے اور اس کے لیے دعا کرتے رہے اور اس کا مال بھی جو صدقہ جاریہ کی صورت میں اس کے نامہ ٔ اعمال میں ثبت ہوتا رہا۔ بلند درجے والے مومن والدین کے ساتھ ان کی اسی اولاد کو ملایا جائے گا جو ایمان کی نعمت رکھتے ہوں گے ، خواہ کسی بھی درجے کا ہو۔ دیکھئے سورة ٔ طور (21) کی تفسیر۔
Top