Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 43
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک اس نے هُوَ اَضْحَكَ : وہی ہے جس نے ہنسایا وَاَبْكٰى : اور رلایا
اور یہ کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اسی نے ہنسایا اور رلایا۔
1۔ وانہ ھو اضحک وابکی۔۔۔۔۔ اس سے پچھلی آیات میں ان معاملات کا ذکر تھا جو انسان کے اختیار میں ہیں ، اختیار کے باوجود ان میں انسان کی کوتاہی ایک مسلم امر ہے ، جیسا کہ فرمایا (کَلاَّ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ) (عبس : 23)”ہرگز نہیں ، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔“ پھر کسی کے پاس اپنے تزکیے کی کیا گنجائش ہے ؟ اب ان معاملات کا ذکر ہے جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ، مثلاً ہنسنانا ، رلانا ، مارنا ، جلانا (زندہ کرنا) ایک نطفہ سے کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنادینا ، مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا، غنی کردینا ، خزانے بخش دینا ، مشرکین جن ستاروں کو پوجتے ہیں ان سب کا ، خصوصاً ”شعریٰ“ کا رب ہونا اور بڑی بڑی قوت والی قوموں کو نافرمانی پر ہلاک کردینا ، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پھر جب انسان اس قادر مطلق کے سامنے اتنا بےبس ہے کہ اس کا رونا ، ہنسنا اور مرنا جینا بھی اس کے اختیار میں نہیں اور نہ اسے اگلے لمحے تک خبر ہے کہ اسے ہنسنا یا رونا ، جینا ہے یا مرنا ، تو وہ اپنا تزکیہ کس منہ سے کرتا ہے ؟ 2۔ وانہ ھو اغنی واقنی۔۔۔۔ اقنی ”قنیۃ“ سے ہے جس کا معنی خزانہ ہے۔ یعنی اس نے جمع کرنے اور خزانہ بنانے کے لیے مال عطا فرمایا۔ آیت :(وانہ ھو اضحک وابکی) اور یہ آیت (وانہٗ ھو اغنی و اقنی) دونوں میں ”انہ“ کے بعد ”ھو“ ضمیر سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جس نے ہنسایا اور رلایا۔۔۔۔۔ 3۔ وانہٗ ھو رب الشعری : ہر چیز کا رب ہونے کے باوجود اس ستارے کا رب ہونے کا خاص طور پر ذکر اس لیے فرمایا کہ بعض عرب مثلاً خزاعہ وغیرہ اس کی پرستش کرتے تھے ، اس لیے فرمایا کہ تم جس ستارے کی پرست کرتے ہو تمہاری قسمتیں اس کے اختیار میں نہیں ، وہ تو خود اپنی قسمت کا مالک نہیں ، بلکہ اس کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
Top