Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 24
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِۚ
وَلَهُ الْجَوَارِ : اور اسی کے لیے ہیں جہاز الْمُنْشَئٰتُ : اونچے اٹھے ہوئے فِي الْبَحْرِ : سمندر میں كَالْاَعْلَامِ : اونچے پہاڑوں کی طرح
اور اسی کے ہیں بادبان اٹھائے ہوئے جہاز سمندر میں، جو پہاڑوں کی طرح ہیں۔
وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ۔۔۔:”المنشئٰت“”انشاء ینشی“ (افعال) (بنانا) سے اسم مفعول ہے ، پہاڑوں جیسے لمبے چوڑے اور کئی منزلہ اونچے بحری جہاز ”جو بنائے گئے ہیں“۔ اس میں بحری جہاز بنانے کا طریقہ سکھانے کی نعمت کی یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سکھانے سے انسان چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑتے ہوئے کتنا بڑا بحری جہاز بنا لیتا ہے۔ طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے ”المنشئت“ کا ایک اور معنی بھی نقل فرمایا ہے :”ما رفع فلعہ من المفن فھی منشئات واذا لم یرفع قلعھا فلیست بمنشئات“ ”وہ جہاز جن کے بادبان اٹھائے ہوئے ہوں وہ ”منشئات“ ہیں اور جب ان کے بادبان اٹھائے ہوئے نہ ہوں تو وہ ”منشئات ‘ نہیں ہیں“۔ واضح رہے کہ انجن کی ایجاد سے پہلے بحری جہازوں کا سفر موافق ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ چناچہ اونچے اونچے ستونوں کے ساتھ کپڑے باندھ دیے جاتے ، ہوا انہیں دھکیلتی ہوئی منزل مقصود پر پہنچا دیتی ، انہیں بادبان کہا جاتا تھا۔”باد“ ہوا کو کہتے ہیں۔ اگر کہیں رکنا مقصود ہوتا تو وہ کپڑے اکٹھے کردیئے جاتے ، اسے بادبان گرانا کہا جاتا تھا۔ اس معنی کے لحاظ سے بحری جہازوں پر اللہ تعالیٰ کی ایک اور نعمت کا ذکر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ‘ شوریٰ (33) کی تفسیر۔ ”ولہ الجوار“ میں ”لہ“ کو پہلے لانے سے تخصیص پیدا ہوگئی کہ یہ جہاز ، ان کے بنانے کا طریقہ سکھانا ، ہزاروں ٹن وزنی ہونے کے باوجود انہیں سمندر کے سینے پر قائم رکھنا اور ڈوبنے نہ دینا اور لوگوں کو اور ان کے سامان کو درودراز ملکوں تک پہنچانا وغیرہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
Top