Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 10
وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا ہے لَكُمْ : تم کو اَلَّا تُنْفِقُوْا : کہ نہیں تم خرچ کرتے ہو فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کے راستے میں وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ : اور اللہ ہی کے لیے ہے میراث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : آسمانوں کی اور زمین کی لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ : نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے مَّنْ اَنْفَقَ : جس نے خرچ کیا مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ : فتح سے پہلے وَقٰتَلَ ۭ : اور جنگ کی اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ : یہی لوگ زیادہ بڑے ہیں دَرَجَةً : درجے میں مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا : ان لوگوں سے جنہوں نے خرچ کیا مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَقٰتَلُوْا ۭ : اور انہوں نے جنگ کی وَكُلًّا : اور ہر ایک کو وَّعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الْحُسْنٰى ۭ : بھلائی کا وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اور اللہ تعالیٰ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر ہے
اور تمہیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
1۔ وَمَا لَکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَِﷲِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط :”میراث ‘ ‘ اصل میں اس ملکیت کو کہتے ہیں جو پچھلے مالک کے انتقال پر اس کے زندہ رہنے والے وارثوں کو ملتی ہے۔ یہ ملکیت جبری ہوتی ہے ، مرنے والا چاہے یا نہ چاہے ، جو وارث ہوتا ہے اس کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔”وَِﷲِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط“ میں خبر ”للہ“ کو پہلے لانے سے حضر پیدا ہوگیا کہ زمین و آسمان کی وارثت صرف اللہ کے لیے ہے ، کیونکہ آخر کار سب نے فنا ہونا ہے اور جن چیزوں کے مالک تم سمجھے جاتے ہو سب اسی کی طرف لوٹ جانے والی ہیں۔ تو جب یہ مال تمہارے پاس رہنے والا ہی نہیں بلکہ اس نے تمہارے ہاتھ سے نکلنا ہی نکلنا ہے اور اگر تم خرچ نہیں کرو گے تو جبراً تم سے لے لیا جائے گا ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم اسے اللہ کی راہ میں خوشی سے خود ہی خرچ نہ کرو کہ اس صورت میں مالک بھی راضی ہوجائے گا اور جو کچھ تم دو گے اللہ کے ذمے قرض ہوجائے گا۔ جو بےحساب اضافے کے ساتھ تمہارے لیے محفوظ رکھے گا ، جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے۔ آدمی کے مال کی طرح اس کی جان کا بھی یہی حال ہے۔ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎ جاں بجاناں دہ ، وگرنہ از تو بستاند اجل خود تو مصنف باش اے دل ایں نکویا آن نکو ”جان محبوب کو دے دے ، ورنہ موت تجھ سے لے لے گی۔ اے دل ! تو خود ہی انصاف کر کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے ؟“۔ 2۔ لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰـتَلَ ط : یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو بعد میں آنے والے جملے ”اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰـتَلُوْا ط“ سے واضح ہو رہی ہے۔ گویا پوری عبارت اسی طرح ہے :”لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل ومن انفق من بعد الفتح وقاتل“ یعنی ”تم میں سے وہ شخص جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی اور وہ شخص جس نے فتح کے بعد خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہیں“”الفتح“ سے مراد فتح مکہ ہے ، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اذا جاء نصر اللہ والفتح) (النصر : 1)”جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے“۔ یا صلح حدیبیہ ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(انا فتحنا لک فتحاً مبینا) (الفتح : 1) ”بیشک ہم نے تجھے فتح دی ، ایک کھلی فتح“۔ اور دونوں بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ اس طرح صحابہ کے تین درجے ہوں گے ، پہلے درجے میں صلح حدیبیہ سے پہلے ایمان لا کر خرچ اور قتال کرنے والے سابقین اولین اور مہاجرین و انصار دوسرے درجے میں صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ہجرت و نصرت کا شرف حاصل کرنے والے صحابہ کرام اور تیسرے درجے میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ہوں گے ، جو ہجرت یا نصرت کا شرف حاصل نہیں کرسکے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(لا ھجرۃ بعد الفتح) (بخاری ، الجھاد والسیر ، باب فضل الجھاد والسیر : 2783)”فتح مکہ کے بعد (اب) ہجرت نہیں رہی“۔ اس بات کی دلیل کہ صلح حدیبیہ سے پہلے خرچ اور قتال کرنے والے ان لوگوں سے درجے میں بلند ہیں جو فتح مکہ سے پہلے اور صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے ، وہ حدیث ہے جو انس ؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا :(کان بین خالد بن لوبیدہ و بین عبد الرحمن بن عوف کلام ، فقال خالد لعبد الرحمن تستطیلون علینا بایام سبقتمونا بھا ، فبلعنا ان ذلک ذکر للنبی ﷺ ، فقال دعوالی اصحابی ، فوالذی نفسی بیدہ ! لو انفقتم مثل احد ، او مثل الجبال ذھبا ما بلغتم اعما لھم) (مسند احمد : 3، 266، ح : 13812، مسند احمد کے محقق نے اسے صحیح کہا ہے)”خالد بن ولید ؓ اور عبد الرحمن بن عوف ؓ کے درمیان کچھ بات ہوگئی تو خالد ؓ نے عبد الرحمن ؓ سے کہا : تم ہم پر ان چند دنوں کی وجہ سے بڑھ کر باتیں بنا رہے ہو جن میں تم ہم سے پہلے اسلام لے آئے“۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :”میرے ساتھیوں کو میری خاطر چھوڑ دو ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم احد کے برابر یا پہاڑوں کے برابر سونا خرچ کرو ، تب بھی تم ان کے اعمال کو نہیں پہنچ سکتے“۔ 3۔ فتح سے پہلے خرچ اور قتال کرنے والوں کا درجہ اس لیے بڑا ہے کہ فتح سے پہلے مسلمان تعداد میں کم اور قوت میں کمزور تھے ، ان کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی ، ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا دونوں نہایت مشکل اور دل گردے کا کام تھے ، جب کہ فتح کے بعد یہ صورت حال بدل گئی ، مسلمان قوت و تعداد میں بڑھتے چلے گئے اور ان کی مالی حالت بھی پہلے سے بہت بہتر ہوگئی اور پورا جزیرۂ عرب فوج درج فوج اسلام میں داخل ہونے لگا۔ اس لیے فرمایا کہ پہلے مشکل کے دور اور بعد کے دور میں مسلمان ہونے والے اور جہاد میں خرچ کرنے والے اور لڑکے والے برابر نہیں ہوسکتے ، بلکہ پہلوں کا درجہ بڑا ہے۔ 4۔ ابوبکر صدیق ؓ شرف اور فضلیت میں امت کے تمام افراد سے بڑھ کر ہیں ، کیونکہ ایمان لانے میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے میں وہ تمام صحابہ سے پہلے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی زندگی میں نماز کے لیے آگے کیا اور اسی بناء پر مسلمانوں نے انہیں خلافت کے منصب کے لیے مقدم رکھا۔ 5۔ وَکُلاًّ وَّعَدَ اللہ ُ الْحُسْنٰی ط : اس میں یہ صراحت فرما دی کہ صحابہ کرام ؓ کے درمیان اگرچہ درجے اور فضیلت میں تفاوت ہے ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے اچھی جزا یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے اور تمام اصحاب رسول اللہ ﷺ جنتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور زیارت میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ جس شخص نے بھی ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان پر فوت ہوا ، بعد کا کوئی آدمی اس کے درجے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ دیکھئے سورة ٔ فتح کی آخرت آیت کی تفسیر میں مذکورہ حدیث ، جس صحبت و رفاقت کا شرف رکھنے والی مبارک ہستیوں سے بغض اور عداوت ہے اور وہ ان کے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے آنکھیں بند کر کے ان کی معمولی لغزشوں کی وجہ سے ان پر تبرے بازی اور دشنام طرازی کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(لا تسبو ا اصحابی ، فلو ان اخذ کم انفق مثل احد ذھبا ما بلغ مد احدھم ولا نصیفہ) (بخاری ، فضائل الصحابہ ، باب قول النبی ﷺ : ’ لو کنت متحذا خلیلا“: 3673)”میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے کسی شخص کے ایک مد (آدھا کلو اناج) کے برابر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کے نصف کے برابر ہوسکتا ہے“۔ 6۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : ایمان ، انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب کے آخر میں فرمایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح با خبر ہے ، وہ ایک کے عمل کو خوب جانتا ہے کہ کس درجے کا ہے اور اس میں کتنا اخلاص ہے اور وہ اس کے مطابق ہی اسے جزا دے گا۔
Top