بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ کا پاک ہونا بیان کیا ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
1۔ سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج : یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کا خالق ومالک اللہ عزوجل ہر عیب اور کمی سے پاک ہے ، اس کی ذات وصفات ، افعال و احکام غرض ہر چیز کسی بھی طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اس سورت میں اور سورة ٔ صف اور سورة ٔ حشر کے شروع میں ”سبح“ (ماضی) آیا ہے ، سورة ٔ جمعہ اور سورة ٔ تغابن میں ”یسبح“ (مضارع) آیا ہے ، جس میں حال و استقبال دونوں شامل ہیں اور سورة ٔ بنی اسرائیل میں ”سبحن“ (مصدر) آیا ہے ، جس میں دوام پایا جاتا ہے۔ یعنی کائنات کا ذرہ ذرعہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا ہر عیب سے پاک ہوتا بیان کرتا چلا آتا ہے ، اب بھی کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ سورة ٔ اعلیٰ میں ”سبح“ امر کے ساتھ بھی آیا ہے۔ 2۔ اس میں مشرکین پر چوٹ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہر عیب سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے اور تم ہو کہ اس کے لیے شریک اور اس کے لیے اولاد بنا کر اس پر اتنا بڑا عیب لگا رہے ہو جس سے بڑا عیب اور جس سے بڑی گالی اس کے لیے ہو ہی نہیں سکتی۔ تمہیں پیدا اس نے کیا ، تمہاری پرورش وہ کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری وہ کرتا ہے ، تمہاری موت و حیات اس کے ہاتھ میں ہے ، مگر تم اس کے بےبس بندوں میں سے کسی کو داتا کہتے ہو ، کسی کو دستگیر ، کسی کو مشکل کشا اور کسی کو گنج بخش ، کسی کو تم نے اولاد دینے والا بنا رکھا ہے تو کسی کو حکومت دینے والا ، کسی کو خزانے بخشنے والا تو کسی کو شفاء دینے والا ، کسی کے متعلق کہتے ہو کہ وہ اللہ کی تقدیر کا رخ پھیر دیتا ہے اور کسی کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر راستے سے واپس لے آتا ہے۔ اب آسمان و زمین کی ہر چیز کی گواہی کو دیکھو اور اپنے طرز عمل کو دیکھو۔ عبد اللہ بن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں :(قال اللہ کذبنیی ابن آدم ولم یکن لہٗ ذلک وشتمنی ولم یکن لہ ذلک ، فاماتکذمیہ ایای فزعم انی لا اقدر ان اعیدہ کما کان واما شتمہ ایای فقولہ لی ولد ، فسبحانی ان اتخذ صاحبۃ او ولدا) (بخاری ، التفسیر ، سورة البقرۃ ، باب :(وقالوا اتخذ اللہ ولدا سبحانہ): 4482)”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ابن آدم نے جھٹلا دیا ، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا اور اس نے مجھے گالی دی ، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے دوبارہ بنانے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ کہنا ہے کہ میری کوئی اولاد ہے، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کوئی بیوی یا اولاد بناؤں“۔ اس سورت میں اور مذکورہ بالا دوسری سورتوں کی آیات میں ”تسبیح“ کے لفظ اور اس حدیث میں ’ سبحانی“ کے لفظ پر غور فرمائیں تو تسبیح کا مفہوم کافی حد تک واضح ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح کے ذکر کے بعد اپنی دس سے زیادہ صفات بیان فرمائیں اور سب کے بعد کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانے کی دعوت دی ، فرمایا :(اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط) (الحدید : 7) ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں (پہلوں کا) جانشنی بنایا ہے“۔ 3۔ تسبیح کا لغوی معنی کیا ہے ، قرآن آیات میں اس کا مفہوم کیا ہے ، یہ تسبیح زبان حال سے ہے یا قول کے ساتھ ؟ ان سب باتوں کے لیے دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (43، 44) کی تفسیر۔ 4۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ :”العزیز“ ”عز یعز“ (ض) سے مبالغے کا صیغہ ہے ، سب پر غالب ہے ، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ کرنا چاہے اور نہ کرسکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے کسی کام سے روک سکے۔”الحکیم“ کمال حکمت والا۔ اس کا ہر کا محکم ہے اور دانائی پر مشتمل ہے ، اس لیے کہ وہ ماضی ، حال اور مستقبل کا کامل عامل رکھتا ہے۔ اس کے کسی کام میں کوئی غلطی نہیں ، وہ عزیز ہے تو حکیم بھی ہے ، اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ کمال حکمت بھی شامل ہے۔”العزیز الحکیم“ خبر پر الف لام سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ عزیز و حکیم صرف وہ ہے ، کوئی اور نہیں۔
Top