Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 27
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ١ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ اِ۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا١ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
ثُمَّ
: پھر
قَفَّيْنَا
: پے در پے بھیجے ہم نے
عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ
: ان کے آثار پر
بِرُسُلِنَا
: اپنے رسول
وَقَفَّيْنَا
: اور پیچھے بھیجا ہم نے
بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ
: عیسیٰ ابن مریم کو
وَاٰتَيْنٰهُ
: اور عطا کی ہم نے اس کو
الْاِنْجِيْلَ
: انجیل
وَجَعَلْنَا
: اور ڈال دیا ہم نے
فِيْ قُلُوْبِ
: دلوں میں
الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ
: ان لوگوں کے جنہوں نے پیروی کی اس کی
رَاْفَةً
: شفقت کو
وَّرَحْمَةً ۭ
: اور رحمت کو
وَرَهْبَانِيَّةَۨ
: اور رہبانیت
ابْتَدَعُوْهَا
: انہوں نے ایجاد کیا اس کو
مَا كَتَبْنٰهَا
: نہیں فرض کیا تھا ہم نے اس کو
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اِلَّا ابْتِغَآءَ
: مگر تلاش کرنے کو
رِضْوَانِ
: رضا
اللّٰهِ
: اللہ کی
فَمَا رَعَوْهَا
: تو نہیں انہوں نے رعایت کی اس کی
حَقَّ رِعَايَتِهَا ۚ
: جیسے حق تھا اس کی رعایت کا۔ نگہبانی کا۔ پابندی کا
فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ
: تو دیا ہم نے ان لوگوں کو
اٰمَنُوْا
: جو ایمان لائے
مِنْهُمْ
: ان میں سے
اَجْرَهُمْ ۚ
: ان کا اجر
وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ
: اور بہت سے ان میں سے
فٰسِقُوْنَ
: فاسق ہیں
پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل دی اور ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے اس کی پیروی کی نرمی اور مہربانی رکھ دی اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا) پھر انھوں نے اس کا خیال نہ رکھا جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق تھا، تو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
1۔ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا :”قفینا“ ”قفا“ سے مشق ہے ، جس کا معنی گدی (گردن کا پچھلا حصہ) ہے۔ ”اثار“ ”اثر“ کی جمع ہے۔ نشان قدم۔ مراد یہ ہے کہ پہلے رسولوں کے بعد دوسرے رسول اس طرح بھیجے جس طرح ایک گردن کے پیچھے دوسرا اس کے نشان قدم پر چلتا ہوا آرہا ہو۔ سب کی تعلیم ایک تھی اور سب ایک ہی راستے کے مسافر تھے۔ 2۔ وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَیْنٰـہُ الْاِنْجِیْلَ : عیسیٰ ؑ کا الگ خاص طور پر ذکر فرمایا ، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے پہلے سب سے آخر میں وہی تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل عطاء فرمائی ، جس میں تورات پر عمل کی تاکید کی تھی اور اسکے بعض سخت احکام میں نرمی کا اعلان تھا ، جیسا کہ فرمایا :(وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ) (آل عمران : 50) ”اور تاکید میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں۔“ البتہ وہ بھی اسی راستے پر چلنے والے تھے جس پر پہلے رسول چلتے تھے ، جس میں جہاد کی تعلیم بھی تھی۔ 3۔ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ط :”رافعہ“ وہ رحمت جو کسی سے تکلیف یا نقصان دور کرنے سے تعلق رکھتی ہو ، جیسا کہ فرمایا :(وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہ ِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج) (النور : 2) ”اور تمہیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔“ جبکہ ”رحمۃ“ کا لفظ عام ہے ، جس میں ہر طرح کا رحم شامل ہے ، خصوصاً جس میں نفع پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ حج کی آیت (65):(ان اللہ بالناس لرء ورحیم) کی تفسیر۔ عیسیٰ ؑ کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ؑ کو جو کتاب انجیل عطاء فرمائی تھی وہ بنیادی طور پر احکام کی نہیں بلکہ وعظ و تذکیر کی کتاب تھی ، جس میں انہیں خاص طور پر نرمی اور رحم کے اخلاق اختیار کرنے پر زوردیا گیا تھا ، چناچہ انہوں نے اس پر عمل کیا ، پھر عیسیٰ ؑ کی سیرت پر عمل نے ان میں یہ صفت مزید پختہ کردی ، چونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کے فضل سے ہوا ، اس لیے فرمایا کہ ہم نے اس کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں رافت و رحمت رکھ دی۔ انجیل میں رافت و رحمت پر زور دینے کی وجہ یہ تھی عیسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے نفوس کی اصلاح کے لیے اور ان کی دلوں سے اس سختی کو دور کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا جو طویل مدتیں گزرنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں پیدا ہوچکی تھی ، جیسا کہ فرمایا :(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط) (البقرۃ : 74) ’ ’ پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں ، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں“۔ عیسیٰ ؑ کے اصحاب یہود کے برعکس آپس میں نہایت نرم اور مہربان تھے ، ہمارے رسول ﷺ کے اصحاب میں بھی یہ وصف بہت نمایاں تھا ، جیسا کہ فرمایا :(وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ) (الفتح : 29)”اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہات رحم دل ہیں“۔ 4۔ وَرَہْبَانِیَّۃَ نِابْتَدَعُوْہَا :”رھب یرھب رھبا“ (ف) ڈرنا۔ ”راھب“ ڈرنے والا۔ ”رھبان“ (بروزن فعلان) ک بہت ڈرانے والا۔”رھبانیۃ“ کی نسبت اسی ”رھبان“ کی طرف ہے ، یعنی رہبان کا طریقہ اختیار کرنا ، جو شدت خوف سے شادی نہیں کرتا کہ بیوی بچے اس کی عبادت میں رکاوٹ نہ بنیں ، لوگوں سے علیحدگی اختیار کرتا ہے کہ اسے عبادت سے غافل نہ کریں۔ کھانے پینے کی لذیذ اشیاء سے اجتناب کرتا ہے کہ دنیا کی حرص اور نفس کی خواہشوں سے بچ سکے ، اس لیے وہ آبادی سے الگ جنگل بیابان میں کٹیا بنا کر عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہ طریقہ انبیاء کا طریقہ نہیں ، نہ انہوں نے اس کی تعلیم دی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ان کا طریقہ تو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دینا اور لوہے کے استعمال کے ساتھ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ سو جن لوگوں نے ترک دنیا کا راستہ اختیار کرکے دعوت و جہاد کا کام چھوڑ دیا ، یہ طریقہ ان کی اپنی ایجاد تھی ، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں :(لما کان من امر عثمان بن مظعنون الذی کان من ترک النساء بعث الیہ رسول اللہ ﷺ فقال یا عثمان ! انی لم او مر بالرھبانیۃ ارغبت عن سنتیی ؟ قال لا یا رسول اللہ ! قال ان من سنتی ان اصلی وانام ، واصوم واطعم، وانکح و اطلق ، فمن رغب عن سنتی فلس منی) (سنن دارمی ، 2، 179، ح : 2169، قال المحقق حسین سلیم اسد الدارنی ، اسنادہ صحیح والحدیث متفق علیہ)”جب عثمان بن مظعون ؓ کے عورتوں کو ترک کرنے والا معاملہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا :”اے عثمان ! مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا ، کیا تم نے میرے طریقے سے بےرغبنتی اختیار کرلی ہے ؟“ انہوں نے کہا : ”نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا :”میرے طریقے میں سے یہ ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا (بھی) ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا (بھی) ہوں اور میں نکاح بھی کرتا ہوں اور طلاق بھی دیتا ہوں ، تو جو شخص میرے طریقے سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں“۔ انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے ، وہ نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انہیں (اس کے بارے) بتایا گیا تو گویا انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے :”کہاں ہم اور کہاں نبی ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو پہلے پچھلے سب پناہ معاف فرما دیئے ہیں“۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : ”میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا“۔ دوسرے نے کہا : ”میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا ، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا“۔ تیسرے نے کہا :”میں عورتوں سے الگ رہوں گا ، کبھی نکاح نہیں کروں گا“۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا :(انتم الذین قلتم کذا وکذا ؟ اما واللہ ! انی لا خشا کم للہ واتقاکم لہ ، لکنی اصوم و افطر ، اصلی وارقد واتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی) (بخاری ، النکاح ، باب الترغیب فی النکاح۔۔۔۔۔۔ 5063)”تمہی لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور اس کے تقویٰ والا ہوں ، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، تو جو میرے طریقے سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں“۔ 4۔ مَا کَتَبْنٰـہَا عَلَیْہِمْ : یعنی ہم نے انہیں رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ انہوں نے اسے خود ہی ایجاد کرلیا تھا۔ 6۔ اِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللہ ِ : یہ سننا منقطع ہے اور ”الا“ ”لکن“ کے معنی میں ہے :”ای ما کتبنا ھا علیم لکن فعلوھا ابتغاء رضوان اللہ“ ”یعنی ہم نے انہیں اس کا حکم دیا ، مگر انہوں نے (ترک دنیا کا) یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا“۔ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے :”لکن کتبنا علیھم ابتغاء رضوان اللہ“ یعنی ہم نے انہیں رہبانیت کا حکم تو نہیں دیا ، لیکن ہم نے انہیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کا حکم دیا۔ 7۔ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ج : رہبانیت اختیار کرنے والوں کی دو طرح سے مذمت فرمائی ، ایک یہ کہ انہوں نے دین میں وہ بات ایجاد کی جس کا انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے رہبانیت ایجاد کر کے اپنے آپ پر ترک دنیا کی جو پابندیاں عائد کی تھیں انہیں اس طرح نہ نبھا سکے جس طرح نبھانے کا حق تھا۔ ہمارے شیخ محمد عبدہٗ لکھتے ہیں :”یعنی انہوں نے دو جرم کیے ، ایک رہبانیت (درویشی) کو دین کا جزو لا یفنک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چناچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویش کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی ، لیکن مسیح ؑ کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے اور تثلیت کے چکر میں پھنس کر توحید کو چھوڑ دیا ، پھر درویشی تو در کنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ و ریاست طلبی کا ذریعہ بنا لیا اور باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے لگے۔ الغرض جہاد کے فریضہ کو چھوڑ کر تصوف کی رسوم اختیار کرنا ہی رہبانیت ہے ، جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو (اللہ کی رضا کے بجائے) جاہ و ریاست اور دنیا طلبی کا ذریعہ بنانا تو ناقابل عفو گناہ ہے ، جو یہود و نصاریٰ میں عام وباء کی شکل اختیار کر گیا تھا“۔ (اشرف الحواشی) شاہ عبد القادر فرماتے ہیں :”یہ فقیری اور تارک ِ دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی ، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے ، نہ بیوی رکھتے نہ اولاد ، نہ کماتے نہ جوڑتے ، محض عبادت میں رہنے ، خلق سے نہ ملتے۔ اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا ، مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا ، پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے“۔ (موضح) آج کل روزانہ اخبارات میں نصرانی چرچوں میں پادریوں اور راہبوں کے زنا اور قوم لوط کے عمل کی خبریں اسی ”فما رعوھا حق رعایتھا“ کی عملی تفسیر ہیں۔ 8۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان ”لتتبعن سنن من قبلکم“ کے مطابق امت مسلمہ میں بھی رہبانیت تصوف کی صورت میں رائج ہوگئی۔ (دیکھئے بخاری : 3456) دنیا میں اسلام کو غالب کرنے اور جہاد کے بجائے تک ِ دنیا کمال ٹھہرا ، تو توحید کے بجائے پیر پرستی اور قبر پرستی پھیل گئی۔ احسان کی منزل یہ تھی کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا اسے دیکھ رہا ہے ، سوا گر یہ اسے نہیں دیکھتا تو وہ اسے یقینا دیکھ رہا ہے۔ تصوف میں اس کے بجائے کمال یہ ٹھہرا کہ شیخ کا تصور اس طرح رکھو کہ ایک لمحہ بھی دل و دماغ اور آنکھوں سے جدا نہ ہو۔ رسو ل اللہ ﷺ نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا جو نہ بتایا ہو، یہاں ان طریقوں کو چھوڑ کر نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ٹھہرے ، مثلاً روزے رکھنے کے بجائے ترک حیوانات جمالی و جلالی کیا گیا، یعنی کوئی حیوان یا اس سے نکلنے والی چیز مثلاً گوشت یا دودھ یا گھی نہ رکھا جائے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور مسنون اذکا ار کے بجائے سانس بند کر کے خود ساختہ وظیفوں کو ، جن کے ساتھ تصور شیخ کا شرک ہو ، ولایت کے حصول کا مستند طریقہ قرار دیا گیا۔ محنت اور کمائی کے بجائے لوگوں کے نذر انوں یا گدائی کے ٹکڑوں پر گزر کرنا فقر کی منزل قرار پایا۔ قرآن کی دعوت کے ساتھ جہاد کی تلوار لے کر دنیا پر اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کے بجائے جنگلوں بیابانوں یا مقبروں اور خانقاہوں میں ”ہو حق“ کی ضربیں مقصد حیات قرار پائیں۔ مسجدیں ویران ہوئیں اور مقبرے آباد ہوئے اور یہ کام کرنے والوں کی پارسائی اور روحانی اقتدار کے اتنے جھوٹے قصے مشہور کیے گئے کہ نصرانی راہبوں اور ہندو جوگیوں کی ولایت کے افسانے ان کے مقابلے میں ہیچ ہوگئے۔ احبارو رہبان کے باطل طریقوں کے ساتھ لوگوں کے مال کھانے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا جو یہاں اختیار نہ کیا گیا ہو۔ جو لوگ دنیاوی مصروفیت کی وجہ سے یہ کام نہ کرسکے انہوں نے بھی کتاب و سنت پر عمل کے بجائے ان خدا رسیدہ ہستیوں کی خدمت کو نجات کے لیے کافی سمجھا اور انہیں قیامت کے دن اپنا کار ساز سمجھا اور انہیں قیامت کے دن اپنا کار ساز سمجھ کر عمل سے فارغ ہوگئے۔ نتیجہ کفار کے غلبے اور مسلمانوں کی ذلت اور غلامی کی صور ت میں سب کے سامنے ہے۔ اس کا علاج اب بھی وہی ہے جو اس مبارک سورت میں بتایا گیا ہے کہ رہبانیت کے بجائے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق بسر کی جائے ، لوگوں کے بنائے ہوئے طریقوں کے بجائے کتاب و سنت سے ثابت اعمال کی پابندی کی جائے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور جان و مال کی قربانی سے کسی قسم کا دریغ نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس طرح تورات و انجیل کی تعلیم رہبانیت کے بجائے قتال فی سبیل اللہ تھی اسی طرح قرآن مجید کی تعلیم بھی یہی ہے ، دلیل اس کی یہ آیت ہے :(اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَقف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط) (التوبۃ : 111)”بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں ، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں ، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں ، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے“۔ 9۔ فَاٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ : ان میں دو قسم کے لوگ شامل ہیں ، ایک وہ جو رہبانیت اور اس کے خود ساختہ عقائد و اعمال مثلاً تثلیث ، قبر پرستی اور ترک دنیا کے بجائے صحیح ایمان و عمل پر قائم ہے ، جو تورات و انجیل سے ثابت تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کا اجر عطاء فرما دیا اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا اور آپ پر ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ان کا اجر عطاء فرما دیا۔ 10۔ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰـسِقُوْنَ : یعنی ان میں سے بہت سے لوگ وہ تھے جو اپنی خواہش کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
Top