Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 3
هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
هُوَ الْاَوَّلُ : وہی اول ہے وَالْاٰخِرُ : اور وہی آخر ہے وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہے وَالْبَاطِنُ ۚ : اور باطن ہے وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
وہی سب سے پہلے ہے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہر ہے اور چھپا ہوا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج۔۔۔۔:”ظھر یظھر“ (ف) کا معنی پوشیدہ کے مقابلے میں ظار ہونا بھی ہے اور بلند اور غالب ہونا بھی جیسا کہ فرمایا :(لیظھرہٗ علی الدین کلہ) (التوبۃ : 33) ”تا کہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے“۔ یہاں بھی ”ھو“ مبتداء کی چاروں خبروں ”الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج“ پر الف لام کی وجہ سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جو سب سے پہلے ہے ، اس کی کوئی ابتداء نہیں اور وہی سب سے آخر ہے ، اس کے بعد کوئی نہیں ، اس کی انتہاء بھی کوئی نہیں ، اس کے سوا سب فناء ہونے والے ہیں ، اس پر فنا نہیں۔ وہی ہے جس کا وجود ظاہر ہے ، جو کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسے بنانے والا موجود ہے ، جو ہر چیز پر غالب ہے کہ اس نے جو چاہا بنادیا اور جو چاہتا ہے بنا دیتا ہے ، کوئی اس سے اوپر نہیں جو اسے روک سکے اور وہی ہے جس کی ذات پوشیدہ ہے جس کا آنکھیں ادراک نہیں کرسکتیں۔ اس کے سوا کسی میں ان چاروں صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی۔ اس آیت کی بہترین تفسیر خود رسول اللہ ﷺ سے آئی ہے ، ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم اپنے ستر پر لیٹیں تو یہ کہیں :(اللھم رب السماوات ورب الارض و رب العرش العظیم ، ربنا ورب کل شیئ، فالق الحب وشوی ، ومنزل التوراۃ والانجیل والفرقان ، اعوذ بک من شرکل شیء انت آخذ بنا صیتہٖ ، اللھم انت الاول فلیس قبلک شیء وانت الآخر فلیس بعدک شیء وانت الظاھر فلیس فوقک شیء وانت الباطن قیس دونک شیء ، اقض عنا الدین واغننا من الفقر) (مسلم ، الذکر والدعا ، باب ما یقول عند النوم و اخذالمضجع : 2713)”اے اللہ ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب ! دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑ نکالنے والے اور تورات و انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ مانگنا ہوں جس کی پیشانی کے بالوں کو تو پکڑے ہوئے ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اول ہے ، سو تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تو ہی آخر ہے ، سو تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تو ہی ظاہر ہے ، سو تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی باطن ہے ، سو تجھ سے ”دون ‘ ‘(بعد) کوئی چیز نہیں۔ تو ہم سے قرض ادا کرے اور ہمیں فقیر سے غنی کر دے“۔ 2۔”الباطن“ کی ایک تفسیر وہ ہے جو عام طور پر کی جاتی ہے ، یعنی پوشیدہ۔ اس کے مطابق ”لیس دونک شئی“ کا مطلب یہ ہے کہ تو ہی پوشیدہ ہے ، سو تجھ سے زیادہ پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔ یہ مفہوم ”لا تدرکہ الابصار“ میں بیان ہوا ہے ، دیکھئے سورة ٔ انعام (103) کی تفسیر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی حدیث میں بھی یہی بات ہوئی ہے ، انہوں نے فرمایا :(قام مینا رسول اللہ ﷺ بخمس کلمات فقال ان اللہ عزوجل لا ینام ولا ینبغی لہ ان ینام، یحنض القسط و یرفعہ یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النھار و عمل النھار قبل عمل اللیل، حجابہ النوروفی روایۃ ابی بکر النار لو کشفہ لا حرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ) (مسلم الایمان باب فی قولہ ؑ :”ان اللہ لا ینام۔۔۔۔۔“: 179)”رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں ، چناچہ آپ نے فرمایا :”اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق نہیں کہ وہ سوئے ، وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اسے اٹھاتا ہے ، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے۔ اس کا حجاب نور ہے (اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ نار ہے) اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی خلوق میں سے ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے“۔ 3۔ اور ”الباطن“ کی ایک تفسیر وہ ہے جو مفسر طبری نے بیان فرمائی ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں :”والظاھر ‘ ‘ یقول وھو الظاھر علی کل شئی دونہٗ وھو العالی فوق کلی شیء فلاشیء اعلیٰ منہ“”والباطن“ یقول وھو الباطن جمیع الاشیاء ، فلا شیء اقرب الی شیء منہ ، کمال قال :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ) (ق : 16)”یعنی“ ”والظاھر“ کا مطلب یہ ہے کہ وہی اپنے سوا ہر چیز پر ظاہر ہے اور وہی ہر چیز کے اوپر بلند ہے ، کوئی چیز اس سے بلند نہیں اور ”والباطن“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام اشیاء سے باطن ہے ، چناچہ کوئی چیز کسی چیز سے اس سے زیادہ قریب نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ) (ق : 16) ”اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں“۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز سے زیادہ بلند بھی وہی ہے اور ہر چیز کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی وہی ہے۔ بہت سے اہل علم نے اس قرب سے مراد علم کے لحاظ سے قریب ہونا اور ”الباطن“ کا معنی علم کے لحاظ سے ہر چیز کے قریب کیا ہے۔ بحث آگ آیت (4) ”وھو معکم“ میں کچھ تفصیل سے آرہی ہے۔
Top