Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چھپی اور کھلی چیز کو جاننے والا ہے، وہی بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
1۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ : اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی ضمیروں اور صفات کا ذکر چالیس (40) مرتبہ آیا ہے، چوبیس (24) بار لفظ ”اللہ“ کے ساتھ اور سولہ (16) مرتبہ ضمیر ظاہر یا صفات عالیہ کے ساتھ۔ غرض پوری سورت ہی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور اس کے عجیب و غریب تصرفات کے ذکر سے بھرئی ہوئی ہے ، اس لیے اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی صفات عزیز و حکیم کے ساتھ ہوئی ہے اور اختتام بھی اس کی ایسی صفات کے ساتھ ہوا ہے جن کے ذکر سے ایمان والوں کے دلوں میں اس کی خشیت و محبت میں اضافہ ہو اور سرکشوں کو اس کی گفت اور ہیبت و جلال سے خوف دلای جائے۔ ساتھ ہی ان صفات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہر صفت کا سورت میں مذکور واقعات و مضامین میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق بھی ہے۔ (ابن عاشور ، ملخص) 2۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُو : اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے پہلے اس کے ”الہٰ واحد“ ہونے کی صفت بیان فرمائی ، کیونکہ یہ دوسری تمام صفات کی اصل ہے۔ دوسری تمام صفات اس صفت کی دلیل ہیں کہ عبادت اس اکیلے کا حق ہے ، اس لیے قرآن مجید میں اسم مبارک ”اللہ“ کے بعد اکثر اس صفت کا ذکر آتا ہے ، جیسا کہ آیت الکرسی میں اور سورة ٔ آل عمران کے شروع میں فرمایا :(اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم)”اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، زندہ ہے ، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے“۔ 3۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ :”الغیب“ اور ”الشھادۃ“ مصدر ہیں جو اسم فاعل کے معنی میں ہیں ، یعنی غائب و شاید۔ مبالغے کے لیے اسم فاعل کی جگہ مصدر کا لفظ استعمال کیا گیا ، جیسا کہ ”زیدعادل“ کے بجائے مبالغے کے لیے ”زید عدل“ کہہ دیتے ہیں کہ زید سراپا عدل ہے۔”الغیب والشھادۃ“ پر الف لام استغراق کا ہے ، یعنی وہ ہر غائب و حاضر کو جاننے والا ہے۔ وحدانیت کے بعد دوسری صفت علم بیان فرمائی ، کیونکہ معبود ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہو اور اس کا علم کامل ہو۔ وہ معبود کیسا جسے معلوم ہی نہیں کہ کوئی میری عبادت کر رہا ہے۔ (دیکھئے احقاف : 5، 6) ”الغیب والشھادۃ“ دوسروں کے اعتبار سے فرمایا، ورنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز غائب نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ”عالم الغیب“ تو واقعی صرف اللہ تعالیٰ ہے مگر ”عالم الشہادت“ تو اور لوگ بھی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ”الشہادت“ کا علم بھی اس کے سوا کسی کے پاس نہیں ، چند چیزیں جاننے والے کو ”عالم الشہادت“ نہیں کہا جاسکتا۔ مزید دیکھئے سورة ٔ رعد (9، 10) اور سورة ٔ اعلیٰ (7) کی تفسیر۔ 4۔ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ فاتحہ کی تفسیر۔
Top