Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 2
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ
: وہی ہے
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَخْرَجَ
: نکالا
الَّذِيْنَ
: جن لوگوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا
مِنْ
: سے، کے
اَهْلِ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
مِنْ دِيَارِهِمْ
: ان کے گھروں سے
لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ
: پہلے اجتماع (لشکر) پر
مَا ظَنَنْتُمْ
: تمہیں گمان نہ تھا
اَنْ يَّخْرُجُوْا
: کہ وہ نکلیں گے
وَظَنُّوْٓا
: اور وہ خیال کرتے تھے
اَنَّهُمْ
: کہ وہ
مَّانِعَتُهُمْ
: انہیں بچالیں گے
حُصُوْنُهُمْ
: ان کے قلعے
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
فَاَتٰىهُمُ
: تو ان پر آیا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ حَيْثُ
: جہاں سے
لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ
: انہیں گمان نہ تھا
وَقَذَفَ
: اور اس نے ڈالا
فِيْ قُلُوْبِهِمُ
: ان کے دلوں میں
الرُّعْبَ
: رعب
يُخْرِبُوْنَ
: وہ برباد کرنے لگے
بُيُوْتَهُمْ
: اپنے گھر
بِاَيْدِيْهِمْ
: اپنے ہاتھوں سے
وَاَيْدِي
: اور ہاتھوں
الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ
: مومنوں
فَاعْتَبِرُوْا
: تو تم عبرت پکڑو
يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ
: اے نگاہ والو
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا پہلے اکٹھ ہی میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تم نے گمان نہ کیا تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ یقینا ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچانے والے ہیں۔ تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں کے ساتھ برباد کر رہے تھے، پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو !
1۔ ہُوَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ :”ھو“ مبتداء کے بعد ”الذی“ خبر معرفہ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تسبیح ہر وہ چیز کرتی ہے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز بھی جو زمین میں ہے اور جو اکیلا ہی عزیز و حکیم ہے، اسی نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جنہوں نے کفا کیا ، اس کے سوا انہیں نکالنے والا اور کوئی نہیں۔ یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان جنگ کے بغیر ان کے جلا وطن ہوجانے کو اپنی بہادری نہ سمجھیں ، بلکہ اللہ کا انعام سمجھ کر اس کی تسبیح و تحمید کریں اور اسی کا شکر بجا لائیں۔ ابن کثیر ؒ تعالیٰ نے ”ہُوَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ“ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد بنو نضیر کے یہود ہیں۔ یہ بات ابن عباس ، مجاہد ، زہری اور بہت سے لوگوں نے کہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان سے صلح کرلی اور معاہدہ کیا کہ نہ آپ ان سے لڑیں گے اور نہ وہ آپ سے لڑیں گے ، مگر انہوں نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو توڑدیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرمایا جو ہٹایا نہیں جاسکتا اور ان پر اپنا وہ فیصلہ جاری فرمایا جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ چناچہ نبی ﷺ نے انہیں جلا وطن کردیا اور انہیں ان کے ان مضبوط و محفوظ قلعوں سے نکال باہر کیا جن کے حاصل ہونے کا مسلمانوں کو کبھی طمع تک پیدا نہ ہوا تھا اور جن کے متعلق یہود یہ سمجھتے تھے کہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لینے والے ہیں ، مگر وہ ان کے کسی کام نہ آئے اور اللہ کی طرف سے ان پر ایسی گرفت آئی جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اسی واقعہ کی تفصیلات مذکور ہیں جن میں ان کے عہد توڑنے کے متعدد واقعات کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو سنن ابو داؤد میں مروی ہے ، عبد الرحمن بن کعب بن مالک نے نبی ﷺ کے اصحاب ؓ میں سے ایک صحابی سے بیان کیا :”رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تھے ، ابھی بدر کا معرکہ نہیں ہوا تھا کہ کفار قریش نے عبد اللہ بن ابی کی طرف اور اوس خزرج میں سے ایک کے بت پرست ساتھیوں کی طرف خط لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو جگہ دے رکھی ہے ، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ہر حال میں اس سے لڑو گے یا اسے نکال دو گے یا ہم سب اکٹھے ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے، تمہارے لڑنے والوں کو قتل کریں گے اور تمہاری عورتیں لوٹ کرلے جائیں گے۔ جب یہ خط عبد اللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کے پاس پہنچا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ان سے ملے اور فرمایا :(لقد بلغ و عیدقریش منکم المبالغ ما کانت تکید کم با کثر مما تریدون ، ان تکیدوا بہ انفسکم تریدون ان تقاتلوا ابناء کم واخوانکم)”قریش کی دھمکی تم پر بہت گہرا اثر کرگئی ہے ، وہ تمہارے نقصان کی اس سے زیادہ کوئی تدبیر نہیں کرسکتے تھے جتنی تم خود اپنے خلاف کر رہے ہو کہ تم اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرنا چاہتے ہو“۔ جب انہوں نے نبی ﷺ سے یہ بات سنی تو وہ منتشر ہوگئے۔ کفار قریش کو بھی یہ خبر پہنچ گئے ، چناچہ انہوں نے بدر کے واقعہ کے بعد یہود کو خط لکھا کہ تم اسلحے اور قلعوں والے لوگ ہو، تمہیں ہر حال میں ہمارے ساتھی سے لڑناہو گا ، یا ہم یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے اور ہمارے درمیان اور تمہاری عورتوں کی پازیبوں کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ جب یہ خط بنو نضیر کو پہنچا تو انہوں نے عہد توڑنے پر اتفاق کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے ساتھیوں میں سے تیس آدمیوں کے ساتھ ہماری طرف آئیں ، ہم میں سے بھی تیس علماء آپ کی طرف آئیں گے اور ہم ایک درمیانی جگہ میں ملیں گے۔ وہ آپ کی بات سنیں گے، اگر انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ پر ایمان لے آئیے تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چناچہ صحابی نے ان کا واقعہ بیان کیا کہ جب اگلا دن ہوا تو نبی ﷺ نے لشکروں کو لے جا کر ان کا محاصرہ کرلیا اور انہیں فرمایا :(انکم واللہ ! لا تامنون عندی الا بعھد تعاھد و نی علیہ) ”اللہ کی قسم ! تمہیں میرے ہاں امن نہیں ہوگا جب تک تم نئے سرے سے میرے ساتھ کوئی عہد نہیں کرو گے“۔ انہوں نے آپ کو کسی قسم کا عہد و پیماں دینے سے انکار کردیا ، تو آپ ﷺ نے اس دن ان سے جنگ جاری رکھی ، پھر اگلے دن لشکروں کو لے کر بنی قریظہ کی طرف گئے اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور انہیں بھی معاہدہ کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ ﷺ سے معاہدہ کرلیا۔ آپ انہیں چھوڑ کر واپس آگئے اور لشکر لے کر بنو نضیر کے پاس پہنچ گئے اور ان سے جنگ جاری رکھی ، حتیٰ کہ وہ جلا وطن کی شرط پر قلعوں سے اتر آئے ، چناچہ بنو نضیر جلا وطن ہوگئے اور اپنے ساز و سامان ، گھروں کے دروازوں اور ان کی لکڑیوں میں سے جو اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے تھے لے گئے : بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت صرف رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھے ، وہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطاء فرمائے تھے اور صرف آپ کے لیے مخصوص فرمائے تھے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وَمَآ اَفَآئَ اللہ ُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ) (الحشر : 6)”اور جو (مال) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایاتو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ“۔ یعنی وہ لڑائی کے بغیر حاصل ہوئے۔ تو نبی ﷺ نے ان کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دے دیا اور اسے ان کے درمیان تقسیم کردیا اور ان میں سے کچھ حصہ دو انصاریوں کو بھی دیا جو ضرورت مند تھے۔ ان دو کے سو ا انصار میں سے کسی کو اس میں سے نہیں دیا اور اس میں سے رسول اللہ ﷺ کا صدقہ باقی رہ گیا جو بنو فاطمہ کے پاس رہا“۔ (ابو داؤد الخراج والفی ، والامارۃ ، باب فی خبر النضیر : 3004، قال الالبانی صحیح الاسناد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنو نضیر نے نہ صرف عہد توڑ دیا تھا بلکہ معاہدے کی تجدید سے بھی صاف انکار کردیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے عہد توڑنے کی وجہ سے ان کا محاصرہ کیا اور آخر کار انہیں جلا وطن کردیا۔ ابن کثیر ؒ تعالیٰ نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا :”اصحاب سیر و مغازی نے غزوۂ بنو نضیر کا قصہ اور اس کا سبب جو بیان کیا ہے وہ اختصار کے ساتھ اس طرح ہے کہ جب بئر معونہ پر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو شہید کردیا گیا ، جن کی تعداد ستر (70) تھی، تو ان میں سے ایک عمرو بن امیہ ضمری ؓ بچ کر بھاگ نکلے ، مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے انہوں نے موقع پا کر قبیلہ بنو عامر کے دو آدمیوں کو قتل کردیا (اور یہ سمجھے کہ وہ بئر معونہ کے شہداء کا کچھ بدلہ لے رہے ہیں) حالانکہ یہ قبیلہ نبی ﷺ سے معاہد ہ کرچکا تھا اور آپس نے انہیں امن و امان دے رکھنا تھا ، لیکن اس کی خبر عمرو ؓ کو نہیں تھی۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :”تم نے انہیں قتل کر ڈالا، اب میں ہر صورت ان کی دیت دوں گا“۔ بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی ، اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کی طرف چلے تا کہ کچھ وہ دیں اور کچھ آپ ﷺ دیں اور بنو عامر کو راضی کرلیا جائے۔ قبیلہ بنو نضیر کے قلعے مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھے۔ جب آپ ﷺ ان کی دیت کے سلسلے میں تعاون حاصل کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : ”ہاں، اے ابو القاسم ! جیسے آپ پسند فرمائیں گے ، ہم ہر طرح سے آپ کی مدد کریں گے“۔ ادھر آپ سے ہٹ کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سے بہتر موقع کب ہاتھ لگ گا ، اس وقت آپ ﷺ قبضے میں ہیں ، آؤ کام تمام کر ڈالو ، چناچہ یہ مشورہ ہوا کہ جب دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے اور ہماری جان ان سے چھڑا دے۔ عمرو بن جحاش بن کعب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا۔ چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے ، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کو نبی ﷺ کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ ﷺ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں۔ چناچہ آپ ﷺ فوراً اٹھ گئے ، آپ کے ساتھ اس وقت آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی ، جن میں ابوبکر و عمر اور علی ؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ وہاں سے فوراً مدینہ کی طرف چل پڑے۔ ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہیں تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے ، وہ آپ کے دیر کردینے کی وجہ سے آپ ﷺ کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران انہیں مدینہ سے آنے والے ایک آدمی نے بتایا کہ آپ ﷺ مدینہ پہنچ گئے ہیں ، چناچہ وہ صحابہ واپس پلٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ساتھ یہود کے غدر کی بات بتائی اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور صحابہ کو لے کر ان کی طرف چل پڑے۔ یہود لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا ، پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں ، وہ کاٹ دیے جائیں۔ اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے ، پھر یہ کیا ہونے لگا ؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم اور ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ، ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی“۔ (ابن کثیر)۔ 2۔ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ :”الحشر“ کا معنی اکٹھا کرنا“ ہے۔ ”اول“ صفت ہے جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہے۔ گویا اصل میں ”للشحر الاول“ ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کو پہلے ہی اکٹھ پر ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ یا ”اول“ کا لفظ ”الحشر“ کی طرف مضاف حقیقی ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اکٹھ کے اول (شروع) ہی میں نکال باہر گیا ، لڑنے کی نبوت ہی نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ خود ہی جلا وطنی پر آمادہ ہوگئے۔ شاہ ولی اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔”در اول جمع کردن لشکر“۔ اور شاہ عبد القادرنے ترجمہ کیا ہے :”پہلے بھی بھیڑ (ٹکراؤ) ہوتے“۔ 3۔ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا : بنو نضیر مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر آباد تھے ، یہ لوگ صنعت و حرفت اور تجارت کے علاوہ سود خوری کی وجہ سے مال دار تھے ، ان کے پاس ہر قسم کا سامان حرب موجود تھا اور انہوں نے نہایت مستحکم قلعے بنا رکھے تھے۔ تعداد میں بھی وہ مسلمانوں سے کم نہ تھے ، بنو قریظہ اور خیبر کے یہودی ان کی پشت پر تھے اور انہیں عبد اللہ بن ابی اور منافقین کی اشیر باد بھی حاصل تھی کہ ہم لڑائی میں ہر طرح سے تمہاری مدد کریں گے۔ اس لیے مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ مڈ بھیڑ ہوتے ہی لڑائی کے بغیر نکل جائیں گے۔ 4۔ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللہ ِ :”ظن“ کا معنی گمان بھی ہے اور یقین بھی ، جیسا کہ سورة ٔ بقرہ کی آیت (46) (الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ) میں ہے۔ یعنی یہود کو گمان بلکہ یقین تھا کہ وہ اتنے محفوظ ہیں کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بھی بچا لینے والے ہیں۔ 5۔ فَاَتٰـہُمُ اللہ ُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا :”حسب یحسب“ گمان کرنا۔ ”احتسب“ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انہیں ادنیٰ گمان بھی نہ تھا۔ 6۔ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ :”قذف“ کا معنی پتھر وغیرہ پھینکنا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دفعتاً اچانک شدت کے ساتھ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اس میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں سے ان کے پاس آیا ، یعنی وہ اپنے قلعے ، ان کی دیواریں ، دروازے اور چھتیں مضبوط کرتے رہے اور گلی کو چوں سے داخل ہونے کے راستے بند کرتے رہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے براہ ِ راست ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب یعنی شدید خوف ڈال دیا۔ جب ہی قائم نہ رہا تو ان کے قلعے انہیں کیا بچاتے ؟ جتنے حمایتی تھے سب انہی کی طرح شدید خوف زدہ ہو کر انہیں چھوڑ گئے ، چناچہ انہوں نے خود ہی اس شرط پر اتر آنے کی درخواست کی کہ ہمیں جان و مال کی امان دی جائے ، ہم یہاں سے نکل جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلحہ کے سوا جو چیز بھی وہ لے جاسکیں ساتھ لے جانے کی اجازت دی اور انہیں جلا وطن کردیا۔ چناچہ ان میں سے کچھ لوگ خیبر میں جا آباد ہوئے اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔ دشمن کے دل میں رعب ڈال دینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مدد ہے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کی اس کے ساتھ جتنی مدد کی گئی اتنی کسی اور پیغمبر کی نہیں کی گئی۔ جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(اعطیت خمسا لم یعطھن احدقبلی ، نصرت بالرعب مسیرۃ شھر) (بخاری ، التیم ، باب : 335)”مجھے پانچ چیزیں عطاء کی گئی ہیں ، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطاء نہیں کی گئی (وہ یہ کہ) ایک مہینے کے فاصلے سے رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے“۔ آگے باقی چار چیزیں بیان فرمائیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں ان کے شرک کرنے کی وجہ سے رعب ڈالنے کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کا بھی وعدہ فرمایا ہے ، دیکھئے سورة ٔ آل عمران (150، 151) 7۔ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ : جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جانا ہی جانا ہے تو انہوں نے اندر ہی اندر اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو گرانا شروع کردیا۔ اس کا باعث ایک تو مسلمانوں پر حسد تھا کہ وہ ان کے کام نہ آسکیں اور دوسرا یہ کہ ان کے دروازے ، کھڑکیاں ، شتہیر اور بالے وغیرہ ساتھ لے جاسکیں۔ 8۔ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ : وہ لوگ محاصرے کے اندر اپنے مکان گرا رہے تھے اور مسلمان گرا رہے تھے اور مسلمان باہر سے ان کی فصلیں ، دیواریں اور مکان گرا رہے تھے ، تا کہ اندر داخلے کا راستہ کھلا ہوجائے اور لڑائی ہو تو وسیع میدان میسرہو سکے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جتنی چیزیں لے جاسکتے تھے نکال کرلے جا رہے تھے اور مسلمان ان کے گرائے ہوئے گھروں سے باقی سامان نکالنے کے لیے انہیں مزید تہہ و بالا کر رہے تھے۔ 9۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓـاُولِی الْاَبْصَارِ تو اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو کہ کفر و سرکشی اور بدعہدی کا انجام کیا ہوتا ہے ، کیونکہ سعادت مند وہی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرلے۔ ابن جزی نے اپنی تفسیر ”التسھیل لعلوم التنزیل“ میں فرمایا :”جو لوگ فقہ میں قیاس کو ثابت کرتے ہیں انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے ، حالانکہ ان کا اس آیت سے استدلال ضعیف ہے اور آیت کے مفہوم سے خارج ہے“۔
Top