Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
1۔ لِلْفُقَرَآئِ : یہ پچھلی آیت میں مذکور :”وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ“ سے بدل ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ ان چاروں سے مراد فقراء مہاجرین ہیں اور انصار اور ان کے بعد آنے والے جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ، ان سے محبت کرنے والے اور ان کے لیے دعا کرنے والے ہیں۔ 2۔ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ : یعنی ایک تو وہ فقراء ہیں پھر مہاجر ہیں۔ مراد ان سے وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس جرم میں نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ یہ لوگ اپنے وطن میں گھر بار اور جائیداد وغیرہ سب کچھ رکھتے تھے مگر اب خالی ہاتھ تھے ، نہ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر تھے نہ ضرورت کے لیے مال۔ بنو نضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے ان کی رہائش اور معاش کا کوئی مستقبل بندوست نہ تھا۔ انصار نے انہیں اپنے ساتھ اپنے گھروں میں رکھا ہوا تھا اور انہیں اپنے باغات اور زمینوں کی آمدنی میں بھی شرکت کر رکھا تھا۔ اس آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ مال فے کے حق دار ہیں ، تا کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے مشورے سے بنو نضیر کے باغات اور زمینیں فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیں اور ان کے پاس انصار کی جو زمینیں اور باغات تھے وہ انصار کو واپس کردیئے گئے۔ صرف دو انصاریوں کو ان اموال میں سے کچھ نہ کچھ دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مال فے میں صرف اس زمانے کے مہاجرین کا حصہ تھا ، بلکہ قیامت تک جو لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے ملک سے نکال دیئے جائیں انہیں جگہ دینا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا مسلمان ملکوں کا فرض ہے۔ اس کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فے بھی خرچ کیے جائیں گے۔ 3۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہ ِ وَرِضْوَانًا : یعنی ہجرت سے ان کا مقصد دنیا کی کوئی چیز نہیں ، بلکہ انہوں نے محض اللہ کا فضل یعنی جنت اور اس کی رضا کی تلاش کے لیے ہجرت کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ توبہ کی آیت (72) کی تفسیر۔ 4۔ وَّیَنْصُرُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ ط : اور وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی یعنی ان کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ 5۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ : یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عمل کے ساتھ اپنے قول میں سچے ہونے کو ثابت کردیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے صادق ہونے کی شہادت دی ہے ، اگلی آیت میں انصار کے بھی ”المفلحون“ ہونے کی شہادت دی ہے۔ سورة ٔ انفال میں دونوں کے متعلق فرمایا :(اولیک ھم المومنون حقا ً) (الانفال : 73)”وہی سچے مومن ہیں۔“ اب اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو انکے صدق یا ایمان میں شک کرے یا ان کے متعلق زبان درازی کرے ! ؟
Top