Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 51
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : جو بہتان باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں اِنَّهٗ : بلاشبہ وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو ڈرا جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کی طرف (لے جا کر) اکٹھے کیے جائیں گے، ان کے لیے اس کے سوا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا، تاکہ وہ بچ جائیں۔
وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ۔۔ : اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق فرمایا کہ وہ مبشر (خوشخبری دینے والے) اور منذر (ڈرانے والے) ہوتے ہیں، اب اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو انذار (ڈرانے) کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی ڈرانے کا فائدہ انھی کو ہوسکتا ہے جنھیں دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا نہ ان کی حمایت کرنے والا کوئی مدد گار ہوگا اور نہ سفارشی۔ جو لوگ حشر اور قیامت کو مانتے ہی نہیں اور انکار پر اڑے ہوئے ہیں، انھیں آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، فرمایا : (سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ) [ البقرۃ : 6 ] ”ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔“ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ : یعنی ان لوگوں کو ڈرانے کا یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کے ڈرانے سے ان میں اللہ کا خوف اور زیادہ ہوجائے گا اور وہ گناہوں سے باز آجائیں گے۔ اس آیت سے ان کافروں کا رد بھی مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور ٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے انھیں بچا لیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بےفکر ہو کر بےکھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی سفارش نہیں چل سکے گی۔
Top