Al-Quran-al-Kareem - At-Taghaabun : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں ؟ میرے رب کی قسم ! تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمہیں ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
1۔ زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا :”زعم“ کا لفظ گمان کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے ، کسی بات کا دعویٰ کرنے کے معنی میں بھی اور جھوٹ کہنے کے معنی میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا دعویٰ حرف تاکید ”لن“ کے ساتھ ذکر فرمایا ، مگر یہ دعویٰ کرنے کو زعم قرار دیا۔ گویا ان کا تاکید کے ساتھ کہنا کہ انہیں ہرگز اٹھایا نہیں جائے گا ، سراسر گمان اور جھوٹ ہے۔ گمان اس لیے کہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں جس کی بنیاد پر وہ یقین سے کہہ سکیں کہ دوبا ہ زندگی نہیں ہوسکتی۔ انسان کے پاس ایسا ذریعہ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا ، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہوسکتا ہے ، پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے بیان کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں ، لیکن جی اٹھنے کی تردید میں وہ کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ 2۔ قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ : یعنی جب وہ محض گمان کی بنیاد پر اتنی تاکید کے ساتھ قیامت کا انکار کر رہے ہیں تو آپ ان کے رد میں اس سے زیادہ تاکید کے ساتھ کہیں کہ میں تمہارے اس دعوے کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر پورے یقین کے ساتھ اپنے رب کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب مانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قسم کے ساتھ یہ بات کہنے کا حکم دیا ، تا کہ انہیں اس کا یقین ہوجائے ، کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ قسم کھا کر بات کی جائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے۔ یہ تیسری جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو قسم کھا کر قیامت کا یقین دلانے کا حکم دیا ہے۔ پہلے سورة ٔ یونس میں فرمایا :(وَیَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَط قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ) (یونس : 53)”اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے ؟ تو کہہ ہاں ! مجھے اپنے رب کی قسم ! یقینا یہ ضرور سچ ہے اور تم ہرگز عاجز کرنے والے نہیں ہو“۔ پھر سورة ٔ سبا میں فرمایا :(وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ)”اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ کہہ دے کیوں نہیں ، قسم ہے میرے رب کی ! وہ تم پر ضرورہی آئے گی۔“۔ 3۔ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ : اس میں دوبارہ زندہ کیے جانے کا مقصد بیان فرمایا کہ ساری کائنات کو تمہارے فائدے کے لیے مسخر کرنے اور تمہیں ایمان و کفر میں اختیار دینے کے بعد یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم سے کوئی باز پرس ہی نہ کی جائے ؟ اس لیے اٹھائے جانے کے بعد تمہیں وہ سب کچھ ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا۔ بتانے سے مراد محاسبہ اور سزا دینا ہے ، جیسا کہ دھمکی دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ میں بہت جلد تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کیا۔ 4۔ وَذٰلِکَ عَلَی اللہ ِ یَسِیْرٌ : یعنی تمہیں دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان اور بالکل معمولی بات ہے ، کیونکہ جس نے تمہیں پہلی دفعہ بنا لیا اس کے لیے دوبارہ بنا لینا تو زیادہ آسان ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ یٰسین (78، 79) ، لقمان (28) اور سورة ٔ روم (27) کی تفسیر۔ کفار مکہ جیسا کہ متعدد آیات سے ظاہر ہے ، اس بات کے قائل تھے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔
Top