Al-Quran-al-Kareem - Al-Qalam : 2
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ
مَآ اَنْتَ : نہیں ہیں آپ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ : اپنے رب کی نعمت کے ساتھ بِمَجْنُوْنٍ : مجنون
کہ تو اپنے رب کی نعمت سے ہرگز دیوانہ نہیں ہے۔
مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔۔۔۔: اللہ تعالیٰ نے قلم کی اور اس چیز کی قسم کھائی جو لکھنے والے لکھتے ہیں اور اس کے جواب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں ، پہلی یہ کہ آپ اللہ کے فضل سے مجنون (دیوانے) نہیں ہیں ، دوسری یہ کہ آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو منقطع ہونے والا نہیں اور تیسری یہ کہ یقینا آپ خلق عظیم پر ہیں۔ قسم جواب قسم کی تاکید کے لیے کھائی جاتی ہے اور عام طور پر اس کے لیے شاہد اور دلیل ہوتی ہے ، یہاں قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ قلم اور قلم سے لکھنے والوں نے جو چھ لکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کفار کا یہ کہنا غلط ہے کہ آپ دیوانے ہیں۔ تقدیر کے قلم نے لوح محفوظ میں ہزاروں سال پہلے آپ کی قسمت میں جو صدق و امانت ، نبوت و رسالت اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور عزت و رفعت لکھ دی ہے اور پہلے صحائف میں آپ کے متعلق جو پیش گوئیاں اور فضائل لکھے ہوئے ہیں ، کراماً کاتبین آپ کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اور کسی بھی شخص کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے ، قرآن مجید میں جو عقائد ، احکام ، قصص اور گزشتہ و آئندہ کی خبریں لکھی ہوئی ہیں ، جن کا ایک شوشہ بھی نہ غلط ہوا ہے نہ ہوگا اور جس کی مثل چھوٹی سے چھوٹی سورت کوئی شخص پیش کرسکا ہے نہ کرسکے گا۔ آپ ﷺ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ، آپ کے افعال و حوال اور آپ کا بعض مواقع پر خاموش رہنا ، یہ سب کچھ جو یاد کرنے والوں نے یاد کیا اور لکھنے والوں نے لکھا ہے اور قیامت تک یاد کرتے اور لکھتے چلے جائیں گے ، اگر کوئی ان تمام لکھی ہوئی چیزوں پر غور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بڑے بڑے عقل مندوں کی تحریروں کا موازنہ کرے اور سارے جہاں کے دیوانوں ، یا وہ گو شاعروں ، گپ بازوں اور افسانہ نویسوں کی لکھی ہوئی فضولیات کا بھی جائزہ لے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ لوح محفوظ میں جس کی قسمت میں اتنی سعادتیں لکھ دی گئی ہیں ، جس کی پیش گوئیاں پہلی آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی ہیں ، جو امی ہونے کے باوجود قرآن جیسی عظیم کتاب لے کر آیا ہے ، جس کے اقوال و احوال اور افعال و تقریرات میں سے ہر چیز بےحد محبت و عقیدت سے لکھی گئی ہے اور قیامت تک محفوظ ہے اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتی ہے ، اور مہیا کرتی ہے ، اس کے متعلق کفارہ کا کہنا ’ ’ انک لمجنون“ کہ آپ دیوانے ہیں (دیکھئے حجر : 6) بالکل غلط ہے ، آپ اللہ کے فضل سے ہرگز دیوانے نہیں ہیں۔ کفار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زمانے کی گردش کے ساتھ آپ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ (طور : 30) اور یہ کہ آپ ابتر ہیں (کوثر : 3) اور یہ کہ آپ کے بعد کا نامل ینے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ نہیں ، بلکہ یقین رکھو کہ آپ کے لیے وہ اجر ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی امت کے اعمال حسنہ بھی آپ کے نامہ ٔ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے ، کیونکہ وہ آپ کی تعلیم ہی سے کیے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(من دل علی خیر فلہ ٗ مثل اجر فاعلہ) (مسلم ، الامارۃ ، باب فضل اعانہ الغازی فی سبیل اللہ۔۔۔۔ 1893)”جو کسی نیکی کی طرف رہنمائی کرے تو اسے وہ نیکی کرنے والے کی طرح اجر ملے گا“۔ اور کفار کا آپ کے متعلق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آپ شاعر ہیں یا کاہن ہیں نعوذ باللہ کذاب یا متکبر ہیں۔ (دیکھئے قمر : 25) نہیں ، بلکہ آپ خلق عظیم پر ہیں۔ ان تینوں آیات میں مخاطب اگرچہ رسول اللہ ﷺ ہیں ، مگر اصل میں یہ باتیں کفار کو سمجھائی جا رہی ہیں۔ 2۔ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ :”خلق“ کے لفظی معنی ہیں وہ عادتیں جو پیدائشی طور پر انسان میں پائی جاتی ہیں ، یعنی وہ خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہوجائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سر زد ہوتی رہیں ”خلق“ کہلاتی ہیں۔ عام طور پر خلق سے مراد لوگوں سے اچھا برتاؤ اور انہیں خندہ پیشانی سے ملنا لیا جاتا ہے ، اگرچہ خلق کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے مگر یہ خلق کا محدود مفہوم ہے۔ صحابہ کرام ؓ میں سے ابن عباس ؓ نے ”خلق عظیم ‘ ‘ کی تفسیر دین سے کی ہے۔ (طبریٰ) اور عائشہ ؓ سے آپ ﷺ کے خلق کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :(کان خلقہ القرآن) (مسند احمد : 6، 91، ح : 24601۔ مسلم : 746)”آپ کا خلق قرآن تھا“۔ یعنی ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق دین اسلام کی ہر بات پر آپ کا اس طرح عمل تھا جیسے وہ آپ کی طبعی عادت ہو اور بقول عائشہ ؓ قرآن مجید آپ کا خلق یعنی آپ کی طبیعت بن گیا تھا۔ وہ سب کچھ جو قرآن میں ہے آپ سے بلا تکلف خود بخود عمل میں آتا تھا، جیسے وہ آپ کی طبیعت خصلت ہے۔ قرآن میں جو حکم دیا گیا اس پر آپ کا عمل تھا اور جس سے منع کیا گیا اس سے مکمل اجتناب تھا ، جو خود بیان اختیار کرنے کی تلقین کی گئی آپ ان سے پوری طرح آراستہ تھا اور جن صفات کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ الغرض ، آپ میں تمام انسان خوبیاں جمع ہوگئی تھیں ، مثلاً شرف نسب ، کمال عقل ، درستی فہم ، کثرت علم ، شدت حیاء ، کثرت عبادت ، سخاوت ، صدق ، شجاعت ، صبر ، شکر ، مروت ، دوستی و محبت ، میانہ روی ، زہد ، تواضع ، شفقت ، عدل ، عفو ، برداشت ، صلہ رحمی ، حسن معاشرت ، حسن تدبیر ، فصاحت لسان ، قوت حواس ، حسن صورت وغیرہ جیسا کہ آپ کی زندگی کے حالات و واقعات میں مذکور ہے۔
Top