Al-Quran-al-Kareem - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو، جب اس نے پکارا، اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔
فاصبر لحکم ربک …: مچھلی والے سے مراد یونس ؑ ہیں۔ آپ ﷺ کو تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار صبر سے کریں، عذاب آنے میں دیر سے پریشان نہ ہوں اور انہیں دی ہوئی مہلت کو لمبا سمجھ کر جلد بازی اور اکتاہٹ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھیں جیسا مچھلی والے (یونس علیہ السلام) سے سر زد ہوا کہ وہ اجازت کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یونس ؑ کے واقعہ کے لئے دیکھیے سورة یونس (98) ، انبیاء (87، 88) اور صافات (139 تا 148)۔ یونس ؑ کی ندا یہ تھی :(لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین) (الانبیائ : 88)”تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔“”وھو مکظوم“ (غم سے بھرے ہوئے ہونے) کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان کے دل میں کئی غم اور صدمے اکٹھے ہوگئے تھے، ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا غم، دوسرا صریح اجازت کے بغیر اپنے چلے آنے کا، تیسرا سمندر میں پھینک دیئے جانے کا اور چوتھا مچھلی کے پیٹ میں قید ہوجانے کا۔ ان سب غموں اور صدموں کا علاج انہوں نے بار گاہ الٰہی میں دعا تسبیح اور استغفار سے کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر غم سے نجات عطا فرما دی۔
Top