Al-Quran-al-Kareem - Al-Haaqqa : 16
وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاهِیَةٌۙ
وَانْشَقَّتِ السَّمَآءُ : اور پھٹ جائے گا آسمان فَھِيَ : تو وہ يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّاهِيَةٌ : سست ہوگا ۔ کمزور ہوگا
اور آسمان پھٹ جائے گا، پس وہ اس دن کمزور ہوگا۔
(1) وانشقت السمآء …:”واھیۃ“ ”وھی بھی وھبا“ (ض ، س ، ف) (کمزور ہونا، بودا ہونا) سے اسم فاعل ہے۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ یہ مضبوط آسمان جس میں لاکھوں کروڑوں سال سے ایک شگاف بھی نہیں پڑا، بالکل کمزور ہو کر پھٹ جائے گا اور فرشتے اس کے کناروں پر چلے جائیں گے۔ اس دن آٹھ فرشتے عرش الٰہی کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے، پھر ؓ اور فرشتے صف در صف زمین پر تشریف لائیں گے۔ ادھر ایک طرف جہنم لائی جائے گی (دیکھیے فجر 21 تا 23) ، دوسری طرف جنت قریب لائی جائے گی۔ (دیکھیے شعرائ : 90، 91) اس وقت سب لوگ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے، کسی شخص کا کوئی عمل چھپا نہیں رہ سکے گا۔ (2) یہ آیت ؓ عنہماکے عرش کے وجود کی زبردست دلیل ہے۔ جو لوگ عرش الٰہی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف حکومت ہے، قیامت کے دن آٹھ فرشتوں کا عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہونا ان کی تردید کرتا ہے۔ یہ حضرات نہ عرش کے وجود کیق ائل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا مانتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن زمین پر آنا مانتے ہیں اور نہ اس کا اوپر کی جانب ہونا مانتے ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ قرآن مجید میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ ایک بزرگ جنہوں نے ہر جگہ عرش الٰہی کی تاویل حکومت و فرماں روائی سے کی ہے ، اس مقام پر آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کے صریح الفاظ کی کوئی تاویل نہیں کرسکے تو انہوں نے اسے آیات متشا بہات میں سے قرار دے کر تسلیم کیا ہے کہ ”ہم نہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہوگی۔“ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس طرح وہ اللہ کے عرش کے اوپر ہونے کو بھی مانتے اور اس کے زمین پر آنخ کو بھی مانتے اور اس کی کیفیت اللہ کے سپرد کردیتے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کس طرح ہے اور وہ زمین پر کس طرح اترے گا، کیونکہ قرآن و حدیث کی نصوص اور سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے۔ مزیدی دیکھیے سورة فجر (22) کی تفسیر۔ تفسیر ماجدی میں ہے :”یہ کہنا کہ فرشوتں کا حامل عرش ہونا حق تعالیٰ کی شان قیومیت کے منای ہے، محض اپنی سطحیت کا اظہار کرنا ہے، اگر قیومیت کے یہ معنی لے لئے جائیں تو ایک اس مسئلہ پر کیا موقوف ہے، ملائکہ کو واسطہ بنا کر ان سے کام لیتے رہنے کا سارا نظام ہی باطل ہوجاتا ہے۔“
Top