Al-Quran-al-Kareem - Al-Haaqqa : 51
وَ اِنَّهٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ : البتہ حق ہے یقینی
اور بلاشبہ وہ یقینا ثابت شدہ یقین ہے۔
وانہ لحق الیقین :”حق“ جو ثابت ہو اور ”الیقین“ وہ بات جس میں کوئی شک نہ ہو۔ قرآن مجید سے یقین کے تین درجے معلوم ہوتے ہیں، پہلا علم الیقین ، وہ یقین جو خبر وغیرہ سے معلوم ہوجائے، جیسے فرمایا :(کلا لو تعلموکن علم الیقین، لترون الجحیم) (التکاثر، 5، 6)”ہرگز نہیں، کاش ! تم یقینی جاننا جان لیتے کہ تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔“ دوسرا عین الیقین ، وہ یقین جو آنکھوں کے دیکھنے سے حاصل ہو۔ آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات کا یقین سنی ہوئی بات کے یقین سے قوی ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(لیس الخبر کالمغاینۃ) (مسند احمد : 1/215، ج : 1832۔ صحیح الجامع الصغیر : 5382)”سنن ادیکھنے کی طرح نہیں۔“ ابراہیم ؑ نے ”رب ارنی کیف تخی الموتی“ کہہ کر یقین ہوتا ہے اس وقت وہ ہر طرح سے پختہ اور ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ پہلے دونوں درجوں سے بڑھ کر ہے۔ ان تینوں درجوں کی مثال یہ ہے کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتانے سے جنت کا یقین ہے، یہ علم الیقین ہے۔ جب میدان محشر میں جنت قریب لائی جائے گی (دیکھیے شعراء : 90) اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے تو یہ عین الیقین ہے۔ پھر جب اس میں داخل ہوں گے اور اس کی نعمتوں سے لذت اٹھائیں گ ے تو انہیں حق الیقین حاصل ہوگا۔ فرمایا یہ قرآن حق الیقین ہے، یعنی قرآن میں جو علوم و معارف اور حقائق بیان ہوئے ہیں، جو شخص ان کی لذت سے آشنا ہوجائے اس کے لئے یہ ہر طرح سے ثابت شدہ یقین ہے۔ (خلاصہ بدائع التفسیر و تفسیر عبدالرحمٰن السعدی)
Top