Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
اور کیا ان لوگوں کی رہنمائی جو زمین کے وارث اس کے رہنے والوں کے بعد بنتے ہیں، اس بات نے نہیں کی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں سزا دیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں تو وہ نہیں سنتے۔
اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ۔۔ : یعنی کیا بعد میں آنے والوں کو پہلوں کے حالات سن اور دیکھ کر یہ بات واضح طور پر معلوم نہیں ہوئی اور انھیں اس سے رہنمائی حاصل نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کی طرح ان کو بھی ان کے گناہوں میں پکڑ لیں۔ وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ : یعنی ہم ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں تو وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے، آخر کار اللہ کا عذاب آتا ہے اور وہ بھی تباہ کردیے جاتے ہیں۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ ؓ لکھتے ہیں کہ اس فقرے کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب اسے ”ُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ“ پر معطوف نہ مانا جائے (بلکہ نیا کلام مانا جائے) اور اگر اسے ”ُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ“ پر معطوف مانا جائے (اور ہمارے خیال میں زیادہ صحیح یہی ہے) تو ترجمہ یوں ہوگا :”اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ پھر وہ نصیحت کی کوئی بات نہ سن سکیں۔“ مگر ابن عاشور صاحب ”التحریر والتنویر“ اور محیی الدین الدرویش صاحب ”اعراب القرآن“ نے اس معنی کی تردید کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا عطف ”بذنوبھم“ پر مانا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے دل پر مہر کردیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک مہر نہیں لگائی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، اس لیے ”وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ“ نیا کلام ہے، اس کا عطف ”بذنوبھم“ پر درست نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کے کسی حصے میں آباد فرماتا ہے انھیں ہر آن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور یہ جانتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے کہ اگر ظلم و فساد کا ارتکاب کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی اسی طرح تباہ کر دے گا جس طرح اس نے پہلی امتوں کو تباہ کردیا۔ پہلی امتوں پر جو تباہی آئی وہ ناگہانی حادثہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزا تھی۔
Top