Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور بلاشبہ یقینا ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ سجدہ کرنے والوں سے نہ ہوا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ : ”خَلَقَ“ کا اصل معنی جس چیز کا وجود نہ ہو اس کا صحیح خاکہ بنانا اور وجود میں لانا ہے۔ اس معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاں، کسی چیز سے کوئی خاکہ تیار کرنے کو بھی ”خَلَقَ“ کہہ لیتے ہیں، یہ مخلوق بھی کرسکتی ہے، سورة مائدہ (110) میں عیسیٰ ؑ کے بارے میں آتا ہے : (ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ) (راغب) ”خلق، برأ“ اور تصویر، پیدائش کے تین مراحل ہیں، سورة حشر (24) میں فرمایا : (هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ) تینوں الفاظ میں سے اکیلا کوئی بھی لفظ آئے تو پیدا کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، اکٹھے آئیں تو کچھ فرق ہے، یعنی ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر تمہیں صورت بخشی : ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ اس سجدے سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیقی سجدہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (34)
Top