Al-Quran-al-Kareem - An-Naba : 15
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ سن لو ! ان کی نحوست تو اللہ ہی کے پاس ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔
فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ۔۔ : جیسا کہ آیت (94، 95) میں ذکر فرمایا تھا کہ ہر قوم کی آزمائش تنگی اور تکلیف کے علاوہ خوش حالی اور آسودگی کے ساتھ بھی ہوئی، اس کے مطابق فرعون کی قوم پر سختی اور مصیبت کے بعد راحت اور خوش حالی آتی تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں، وہ ”لَنَا هٰذِهٖ“ کہتے، یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ اور ہمارا حق ہے۔ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي۔۔ : ”يَّطَّيَّرُوْا“ ”تَطَیَّرَ یَتَطَیَّرُ“ باب تفعل سے ہے جس کا مادہ ”طَیْرٌ“ (پرندہ) ہے۔ اصل میں ”یَتَطَیَّرُوْا“ تھا، تاء کا طاء میں ادغام کردیا ہے۔ مشرکین کا طریقہ تھا کہ فال لینے کے لیے کسی پرندے کو اڑاتے، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف جاتا تو اسے نیک فال اور باعث برکت سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو بدفال اور باعث نحوست سمجھتے، یہاں تمام مفسرین کے نزدیک ”تَطَیَّرَ“ کا معنی فالِ بد اور نحوست ہے، یعنی اپنی مصیبتوں کا باعث موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو قرار دیتے۔ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ۔۔ : یعنی اس نحوست کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر و شر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا جا چکا ہے، یہ سراسر جہالت ہے کہ بھلائی کو اپنی خوبی اور برائی کو کسی دوسرے کی نحوست قرار دیاجائے۔ شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں : ”یعنی شومی قسمت بد ہے، سو اللہ کی تقدیر سے ہے، برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا، اس کا جواب یہاں یہ نہیں فرمایا کہ شومی ان کے کفر سے تھی، کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت (جو) تھی سو فرمائی کہ دنیا کے احوال موقوف بہ تقدیر ہیں۔“ (موضح) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے“ تین دفعہ فرمایا ”اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم ہوجاتا ہے) مگر اللہ تعالیٰ اسے توکل کی برکت سے دور کردیتا ہے۔“ [ أبوداؤد، الطب، باب فی الطیرۃ : 3910 ترمذی : 1614 ]
Top