Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھدی لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاَلْوَاحِ : تختیاں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مَّوْعِظَةً : نصیحت وَّتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی فَخُذْهَا : پس تو اسے پکڑ لے بِقُوَّةٍ : قوت سے وَّاْمُرْ : اور حکم دے قَوْمَكَ : اپنی قوم يَاْخُذُوْا : وہ پکڑیں (اختیار کریں) بِاَحْسَنِهَا : اس کی اچھی باتیں سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کا گھر
اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں ہر چیز کے بارے میں نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، سو انھیں قوت کے ساتھ پکڑ اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کی بہترین باتوں کو پکڑے رکھیں، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔
وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ۔۔ : یعنی تمام عقائد و احکام اور نصائح جن کی حلال و حرام اور دین کے دوسرے معاملات معلوم کرنے کے سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ”كُلِّ“ کا لفظ موقع کی مناسبت ہی سے متعین ہوتا ہے، مثلاً ملکۂ سبا کے متعلق آتا ہے : (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ) [ النمل : 23 ] ”اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔“ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا : (تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا) [ الأحقاف : 25 ] ”جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔“ حالانکہ ظاہر ہے کہ نہ ملکۂ سبا کو کائنات کی ہر چیز عطا ہوئی تھی اور نہ اس آندھی نے کائنات کی ہر چیز کو برباد کیا تھا۔ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ : اسے قوت کے ساتھ پکڑ۔ مجاہد نے فرمایا، جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کر۔ [ بخاری، التفسیر، قبل ح : 4477 ] موسیٰ ؑ کو چالیس دن کے اعتکاف کے بعد کتاب ملی، جب کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کی قوم موسیٰ ؑ کی رسالت اور ان کے احکام سے انکار کی وجہ سے ہلاک کی جا چکی تھی اور اس وقت تک موسیٰ ؑ کو کوئی کتاب نہیں ملی تھی، تقریباً چالیس سال تک اترنے والی وحی موسیٰ ؑ کی حدیث ہی تھی، جس کے انکار کی وجہ سے فرعون غرق ہوا۔ ہمارے نبی ﷺ پر بھی اسی طرح دونوں قسم کی وحی اتری، ایک کتاب اللہ اور دوسری حدیث۔ جس طرح کتاب اللہ کا منکر مسلمان نہیں، اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو نہ ماننے والا بھی کافر ہے، کیونکہ آپ ﷺ پر بھی پہلے نبیوں کی طرح دونوں قسم کی وحی اتری۔ دیکھیے سورة نساء (163 تا 165) از فوائد مولانا محمد اسماعیل سلفی ؓ۔ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ: ”اس کی بہتر باتیں“ یعنی جو کرنے کے حکم ہیں اور بری باتیں (وہ ہیں) جن کے نہ کرنے کا حکم ہے۔ (موضح) یا رخصت کے بجائے عزیمت اختیار کریں جو بہترین ہے اور جس کا اجر زیادہ ہے۔ یا دو کاموں میں سے ایک اچھا ہے اور ایک اس سے بھی اچھا ہے تو بہترین پر عمل کی کوشش کریں، مثلاً قصاص لینا، یا معاف کردینا، انتقام لینا یا صبر کرنا اور درگزر سے کام لینا۔ قرض وصول کرنے میں مہلت دینا یا چھوڑ دینا وغیرہ، اگرچہ دونوں اچھے ہیں مگر احسن پر عمل کی کوشش کریں۔ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : یعنی میں تمہیں فاسقوں کا گھر دکھاؤں گا، یعنی دوبارہ فرعون اور اس کی آل کے گھر مصر لے جاؤں گا، اگرچہ کچھ دیر کے بعد، جیسا کہ بعد میں بنی اسرائیل کو فرعون کے باغات اور خزانوں کا مالک بنادیا۔ دیکھیے سورة اعراف (137) کے حواشی۔ استاد محمد عبدہ ؓ نے لکھا ہے، یعنی اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ میری نافرمانی کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور انھیں کس قسم کی تباہی و بربادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے (گویا ”دَارَ الْفٰسِقِيْنَ“ سے مراد جہنم ہے)۔ (ابن جریر) بعض نے لکھا ہے کہ ”دَارَ الْفٰسِقِيْنَ“ سے مراد اہل شام ہیں، گویا اس میں وعدہ ہے کہ ملک شام تمہارے قبضے میں آئے گا۔ (کبیر) یا یہ کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا۔ (موضح)
Top