Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم نے انھیں زمین میں مختلف گروہوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، انھی میں سے کچھ نیک تھے اور ان میں سے کچھ اس کے علاوہ تھے اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی، تاکہ وہ باز آجائیں۔
وَقَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا ۚ: تاکہ ان کی کوئی اجتماعی قوت وجود میں نہ آسکے۔ اس لیے یہودی تمام دنیا میں ٹکڑوں کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں رہتے ہیں اپنی سود خوری اور اس ملک کے خلاف سرگرمیوں اور جاسوسی کی وجہ سے نفرت کی نگاہوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں، پھر ان کی برتری کی خواہش اور دنیا کی دولت اور حکومت کو اپنے قبضے میں لینے کی خواہش کے لیے ان کی سازشیں یہودی پروٹوکول کی صورت میں دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور کتنے ہی ملکوں سے انھیں نکالا گیا اور تہ تیغ کیا گیا، اب اگرچہ جرمنی سے غداری کے انعام میں برطانیہ اور امریکہ کے بل بوتے پر وہ عربوں کے قلب میں اسرائیل کے خنجر کی صورت میں پیوست ہوچکے ہیں، مگر ان کی اصل قوت امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ہی ہیں۔ یہاں جمع ہو کر بھی وہ ظلم و ستم سے باز آنے کے بجائے فلسطینی عربوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے مؤاخذے میں اس دیر کا انجام کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ۡ: ان میں سے کچھ نیک ہیں، یعنی وہ جو نبی کریم ﷺ پر ایمان لے آئے، یا جیسے وہ لوگ جنھوں نے ہفتے کے روز مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا۔ دیکھیے آل عمران (113 تا 115) اور کچھ ان کے علاوہ، یعنی نیک نہیں بلکہ شریر اور بدکار، جیسے سود، رشوت اور دوسرے طریقوں سے حرام کھانے والے اور انبیاء تک کو قتل کر ڈالنے والے اور نبی کریم ﷺ کو پہچاننے کے باوجود آپ کی مخالفت کرنے والے۔ وَبَلَوْنٰهُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ۔۔ : کبھی راحت اور آرام دیا اور کبھی تکلیف میں مبتلا کردیا، اسی طرح کبھی خوش حالی عطا فرمائی، کبھی فقر و فاقہ سے دو چار کردیا، تاکہ وہ باز آجائیں، یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور تورات کے احکام پر عمل کریں۔ شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں : ”یہود کی دولت برہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے اور مختلف مذاہب پیدا ہوئے، یہ احوال اس امت کو سنایا کہ یہ سب کچھ ان پر بھی ہوگا۔ حدیث میں فرمایا ہے کہ اس امت میں بعض بندر اور سور ہوجائیں گے۔ اللہ گمراہی سے پناہ دے۔“ (موضح) یہ حدیث بخاری میں ہے، فرمایا : (وَ یَمْسَخُ آخَرِیْنَ قِرَدَۃً وَ خَنَازِیْرَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ بخاری، الأشربہ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : 5590 ] ”اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ کر دے گا۔“
Top