Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
قَالَ : وہ بولا فَبِمَآ : تو جیسے اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاَقْعُدَنَّ : میں ضرور بیٹھوں گا لَهُمْ : ان کے لیے صِرَاطَكَ : تیرا راستہ الْمُسْتَقِيْمَ : سیدھا
اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ہی ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ : ابلیس کی شیطنت دیکھیے کہ گمراہ ہونے میں سارا قصور اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا ہے اور اپنے اختیار کی نفی کر رہا ہے، یہی جبریہ کا عقیدہ ہے اور مشرکین نے بھی اللہ تعالیٰ کے ذمے یہی الزام لگایا کہ اگر وہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ [ دیکھیے الأنعام : 148 ] لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ : یعنی میں تو گمراہ ہوں ہی ان کی بھی راہ ماروں گا۔ (موضح) یہاں شیطان جبری کے بجائے قدری بن گیا کہ میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا، پہلے کہتا تھا کہ سب تو نے ہی کیا۔ معلوم ہوا شیطان میں جبری اور قدری (تقدیر کا منکر) ہونے کی دونوں گمراہیاں موجود ہیں، جبکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔
Top