Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بیشک وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ۔۔ : قرآن میں تین مقامات پر معروف کا حکم دینے، درگزر کرنے، بہترین طریقے سے جواب دینے اور جاہلوں سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک پچھلی آیت میں، دوسرا سورة مومنون (96 تا 98) میں اور تیسرا حم السجدہ (34 تا 36) میں اور حم السجدہ میں اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن بھی متاثر ہو کر دلی دوست کی طرح ہوجائے گا، مگر شیطان پر احسان کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ وہ کھلا دشمن ہے اور ہر موقع پر انسان کو اکساتا اور غصہ دلاتا ہے۔ اس شیطانی حملے کا مقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں، اس لیے تینوں آیات میں حکم دیا کہ اگر معلوم ہو کہ شیطان مجھے بھڑکا رہا ہے، غصے پر اکسا رہا ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔ اس پناہ کے سامنے شیطان بےبس ہے۔ قاموس میں ”نَزْغٌ‘ کا معنی ”چوکا مارنا، بھڑکانا اور وسوسہ ڈالنا“ لکھا ہے۔ سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے، ہم آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، ان میں سے ایک سخت غصے میں اپنے ساتھی کو گالیاں دے رہا تھا تو نبی ﷺ نے فرمایا : ”میں ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اسے کہہ لے تو جو حالت اس کی ہے ختم ہوجائے، وہ ہے ”اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ“ لوگوں نے اس آدمی سے کہا : ”تم سنتے نہیں، نبی ﷺ کیا فرما رہے ہیں ؟“ اس نے کہا : ”میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔“ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب۔۔ : 6115۔ مسلم : 2610 ] اوپر جن تین آیات کے حوالے دئیے گئے ہیں ان کے حواشی بھی ملاحظہ فرمائیں۔
Top