Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 77
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
فَعَقَرُوا : انہوں نے کونچیں کاٹ دیں النَّاقَةَ : اونٹنی وَعَتَوْا : اور سرکشی کی عَنْ : سے اَمْرِ : حکم رَبِّهِمْ : اپنا رب وَقَالُوْا : اور بولے يٰصٰلِحُ : اے صالح ائْتِنَا : لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
تو انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کے حکم سے سرکش ہوگئے اور انھوں نے کہا اے صالح ! لے آ ہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو رسولوں سے ہے۔
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ۔۔ : اگرچہ اونٹنی کو ایک ہی شخص نے کاٹا تھا مگر چونکہ ان سب نے اسے مقرر کیا تھا اور وہ سب اس کی پشت پناہی کر رہے تھے، اس لیے سب ہی مجرم ٹھہرے اور سبھی پر عذاب آیا۔ سورة قمر میں ہے : (فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَر) [ القمر : 29 ] ”تو انھوں نے اپنے ساتھی کو پکارا، سو اس نے (اسے) پکڑا، پس (اس کی) کونچیں کاٹ دیں۔“ علمائے تفسیر نے اس اشقیٰ ”سب سے بڑے بدبخت“ (شمس : 12) کا نام قدار بن سالف لکھا ہے۔ (واللہ اعلم) وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ۔۔ : یعنی تو کہتا تھا کہ دیکھنا اس اونٹنی کو کسی برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگا بیٹھنا، ورنہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ اب اگر واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ۔
Top