Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور وہ شخص کہ اس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ۔۔ : اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد کافر ہیں، کیونکہ قرآن نے انھیں ”خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ“ قرار دیا ہے، مومن گناہ گار تو آخر کار کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں پہنچ جائیں گے۔ (کبیر) مزید دیکھیے سورة حاقہ (25 تا 29) کی تفسیر۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ”میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا، اس کے ننانویں اعمال نامے پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نگاہ جاتی ہے، پھر پروردگار اس سے فرمائے گا : ”کیا تم ان میں سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو ؟“ وہ عرض کرے گا : ”نہیں۔“ پھر پروردگار فرمائے گا : ”تمہاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور آج تم سے کوئی بےانصافی نہیں کی جائے گی۔“ پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس پر ”أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ“ درج ہوگا۔ وہ عرض کرے گا : ”بھلا یہ ایک پرزہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گا ؟“ حکم ہوگا کہ تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا (لہٰذا صبر کرو) پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا ایک پرزہ دوسرے پلڑے میں، تو وہ دفتر ہلکے ہوجائیں گے اور وہ پرزہ بھاری ہوگا اور اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔“ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت۔۔ : 2639۔ ابن ماجہ : 4300۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 1؍261 ] اہل علم نے دوسری آیات و احادیث کو مد نظر رکھ کر اس شخص سے وہ آدمی مراد لیا ہے جسے کلمہ پڑھنے کے بعد عمل کا موقع ہی نہیں ملا، یعنی جسے آخری وقت پر کفر و شرک سے باز آنے اور اسلام لانے کی توفیق ملی اور اسلام لانے سے اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے یا بدعمل، اور آخری وقت توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی۔
Top